تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الرشید یہ سنتے ہی شہر رقہ سے پھر ہرقلہ کی جانب روانہ ہوا اور بلاد روم میں داخل ہو کر بہت سے قلعوں کو فتح کر کے مسمار کر دیا اور فتح کرتا ہوا نقفور تک پہنچ گیا۔ اس نے پھر عاجزانہ معافی کی درخواست پیش کی۔ ہارون الرشید نے اس سے جزیہ کی رقم تمام و کمال وصول کی اور اکثر حصہ ملک پر اپنا قبضہ جما کر واپس ہوا۔ اسی سال یعنی ۱۸۷ھ میں سیدنا ابراہیم ادھم نے وفات پائی۔ ۱۸۸ھ میں قیصر نقفور نے پھر سرکشی کے علامات ظاہر کئے۔ لہٰذا ابراہیم بن جبرئیل نے حدود صفصفاف سے بلاد روم پر حملہ کیا۔ قیصر روم خود مقابلہ کے لیے نکلا لیکن تاب مقابلہ نہ لا سکا شکست فاش کھا کر اور چالیس ہزار رومیوں کو قتل کرا کر فرار ہو گیا۔ اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دے کر واپس چلا آیا۔ ۱۸۹ھ میں خلیفہ ہارون الرشید رے کی طرف گیا اور خراسان کی طرف کے صوبوں کا عمال کے عزل و نصب سے جدید انتظام کیا۔ مرزبان دیلم کے پاس امان نامہ بھیج کر اس کی دل جوئی کی۔ سرحدوں کے رئوساء اور فرمانروا اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی فرماں برداری کا یقین دلایا۔ طبرستان‘ رے‘ قومس‘ ہمدان وغیرہ کی حکومت عبدالملک بن مالک کو مرحمت کی۔ اسی سال رومیوں اور مسلمانوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ اسی سال امام محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابوحنیفہ نے رے کے قریب موضع زنبویہ میں وفات پائی۔ اسی روز کسائی نحوی بھی فوت ہوا۔ یہ دونوں ہارون الرشید کے ہمراہ تھے۔ ہارون الرشید دونوں کے جنازہ میں شریک تھا۔ جب قبرستان سے واپس آئے تو ہارون الرشید نے کہا کہ : ’’آج ہم فقہ اور نحو دونوں کو دفن کر آئے۔‘‘ ۱۹۰ھ میں ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو اپنا نائب بنا کر رقہ میں مقیم کیا اور تمام انتظام سلطنت اس کے سپرد کر کے نقفور قیصر روم کی بد عہدی کی وجہ سے بلاد روم پر ایک لاکھ ۳۵ ہزار فوج سے حملہ کیا‘ ہرقلہ کا محاصرہ کیا۔ اور تیس یوم کے محاصرہ کے بعد بزور تیغ فتح کر لیا اور رومیوں کو قتل و گرفتار کیا۔ پھر دائود بن عیسیٰ بن موسیٰ کو ستر ہزار فوج کے ساتھ بلاد روم کے دوسرے قلعوں کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس فوج نے تمام بلاد روم کو ہلا ڈالا۔ انھیں دونوں شرجیل بن معن بن زائدہ نے قلعہ سقالیہ‘ دلبسہ اور دوسرے قلعوں کو فتح کیا۔ یزید بن مخلد نے قونیہ کو فتح کیا۔ عبداللہ بن مالک نے قلعہ ذی الکلاع کو فتح کر لیا۔ حمید بن معیوف امیر البحر نے سواحل شام و مصر کی کشتیوں کو درست کر کے جزیرئہ قبرص پر چڑھائی کر دی اور اہل قبرص کو شکست دے کر تمام جزیرہ کو لوٹ لیا اور سترہ ہزار آدمیوں کو گرفتار کر لایا۔ اس کے بعد ہارون نے طوانہ کا محاصرہ کیا۔ غرض رومی سلطنت کو مسلمانوں نے تہ و بالا کر کے اس کے مٹا ڈالنے اور روز کے جھگڑوں کو ایک ہی مرتبہ طے کر دینے کا تہیہ کر لیا۔ نقفور نے سخت عاجز اور مجبور ہو کر جزیہ دینا قبول کر کے ہارون الرشید کے پاس پچاس ہزار اشرفی رقم جزیہ روانہ کی۔ جس میں اپنی ذات کا جزیہ چار دینار اور اپنے لڑکے اور بطریق کی طرف سے دو دینار روانہ کئے تھے اور خلیفہ ہارون کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ قیدیان ہرقلہ میں سے فلاں عورت مجھ کو واپس مرحمت فرما دی جائے کیونکہ اس سے میرے بیٹے کی منگنی ہو گئی ہے۔ خلیفہ نے اس درخواست کو منظور کر لیا اور اس عورت کو روانہ کر دیا۔ نقفور کی الحاح و عاجزی پر رحم کر کے اس کا ملک اسی کو واپس کر کے تین لاکھ اشرفی سالانہ خراج اس پر مقرر کر کے ہارون