تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیماری کی حالت میں اپنے آزاد کردہ غلام ربیع کو جو اس کا حاجب اور افسر باڈی گارڈ تھا‘ اکثر اپنی مصاحبت میں رکھتا تھا۔ ۶ ذی الحجہ سنہ ۱۵۸ھ بمقام بطن میں جہاں سے مکہ تین چار میل رہ گیا تھا‘ فوت ہو گیا۔ وفات کے وقت اس کے خاص خدام اور ربیع کے اور کوئی اس کے پاس موجود نہ تھا۔ انہوں نے اس روز منصور کی وفات کو چھپایا۔ اگلے دن عیسیٰ بن علی‘ عیسیٰ بن موسیٰ بن محمد ولی عہد دوم‘ عباس بن محمد‘ محمد بن سلیمان‘ ابراہیم بن یحییٰ‘ قاسم بن منصور‘ حسن بن زید علوی‘ موسیٰ بن مہدی بن منصور‘ علی بن عیسیٰ بن ہامان وغیرہ جو اس سفر میں ساتھ تھے‘ دربار میں بلائے گئے۔ ربیع نے خلیفہ کی وفات کی خبر سنائی۔ ایک کاغذ جو منصور کا لکھا ہوا تھا‘ پڑھ کر لوگوں کو سنایا‘ اس میں لکھا تھا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ عبداللہ منصور کی طرف سے پس ماندگان بنی ہاشم و اہل خراسان و عامۃ المسلمین کے نام۔ اما بعد! میں اس عہد نامہ کو اپنی زندگی یعنی دنیا کے دنوں میں سے آخری دن میں اور آخرت کے دنوں میں سے پہلے دن میں لکھ رہا ہوں۔ میں تم کو سلام کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تم کو فتنہ میں نہ ڈالے اور نہ میرے بعد تم کو کئی فرقوں میں متفرق کرے اور نہ تم کو خانہ جنگی کا مزہ چکھائے۔ میرے بیٹے مہدی کی اطاعت کا تم اقرار کر چکے ہو‘ اس پر قائم رہو اور بد عہدی و بے وفائی سے بچو۔‘‘ ربیع نے یہ کاغذ سنا کر موسیٰ بن مہدی بن منصور کو اپنے باپ مہدی کی طرف سے نیابۃً بیعت لینے کا اشارہ کیا اور سب سے پہلے حسن بن زید کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اٹھو! بیعت کرو۔ حسن بن زید نے بیعت کی‘ اس کے بعد یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کی۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ یہ سن کر علی بن عیسیٰ بن ہامان نے کہا کہ اگر تم بیعت نہ کرو گے تو میں تمہاری گردن تلوار سے اڑا دوں گا۔ چنانچہ مجبوراً عیسیٰ بن موسیٰ نے بھی بیعت کر لی۔ اس کے بعد سرداران لشکر اور عوام الناس نے بیعت کی‘ پھر عباس بن محمد اور محمد بن سلیمان مکہ مکرمہ گئے اور انہوں نے رکن و مام کے درمیان لوگوں سے خلافت مہدی کی بیعت لی۔ اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حجون و بیر میمون کے درمیان مقبرہ معلاۃ میں منصور کو دفن کر دیا گیا‘ پھر ربیع نے منصور کی خبر وفات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی چادر و عصا اور خاتم خلافت کو مہدی کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ خبر ۱۵ ذی الحجہ سنہ ۱۵۸ھ کو بغداد میں مہدی کے پاس پہنچی۔ اہل بغداد نے بھی حاضر ہو کر مہدی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ منصور نے ایک ہفتہ کم بائیس سال خلافت کی۔ سات بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں : محمد مہدی‘ جعفر اکبر‘ جعفر اصغر‘ سلیمان‘ عیسیٰ‘ یعقوب‘ سالم اور بیٹی کا نام عالیہ تھا‘ جس کی شادی اسحاق بن سلیمان بن علی کے ساتھ ہوئی تھی۔ خلیفہ منصور سے کسی نے پوچھا کہ کوئی ایسی تمنا بھی ہے جو آپ کی اب تک پوری نہ ہوئی ہو؟ منصور نے کہا کہ صرف ایک تمنا باقی ہے‘ وہ یہ ہے کہ میں ایک چبوترے پر بیٹھا ہوں اور اصحاب حدیث میرے گرد بیٹھے ہوں۔ دوسرے روز جب وزراء کاغذات اور معاملات کی مثلیں اور قلمدان لے کر اس کے پاس پہنچے تو اس وقت وہ دریافت کرنے والا مصاحب بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ لیجیے! اب آپ کی یہ تمنا پوری ہو گئی۔ منصور نے کہا : یہ وہ لوگ نہیں جن کی تمنا مجھے ہے۔ ان لوگوں کے تو کپڑے پھٹے ہوئے‘ پائوں برہنہ اور بال بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور روایت حدیث ان کا کام ہوتا ہے۔