تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
منت و سماجت سے جس طرح ممکن ہو ابومسلم کو میرے پاس آنے کی ترغیب دینا‘ اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے تو پھر میرے غصہ سے اس کو ڈرانا‘ یہ خط جب ابومسلم کے پاس پہنچا‘ تو اس نے مالک ہثیم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ تم ہرگز منصور کے پاس نہ جائو وہ تم کو قتل کر دے گا‘ لیکن ابودائود خالد بن ابراہیم کو خراسان کی گورنری کا لالچ دیکر منصور نے بذریعہ خط پہلے ہی اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ ابومسلم کو جس طرح ممکن ہو میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو‘ ابودائود کے مشورے سے ابومسلم منصور کے پاس جانے پر آمادہ ہو گیا‘ مگر اس نے پھر بھی اس احتیاط کو ضروری سمجھا کہ اپنے وزیر ابواسحٰق خالد بن عثمان کو اول منصور کے پاس بھیج کر وہاں کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل کرے۔ ابواسحاق پر ابومسلم کو بہت اعتماد تھا‘ چنانچہ اول ابواسحاق کو روانہ کیا گیا‘ ابواسحاق جب دربار خلافت کے پاس پہنچا تو تمام سرداران بنوہاشم اور اراکین دولت استقبال کو آئے۔ منصور نے حد سے زیادہ تکریم و محبت کا برتاو کیا اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسحاق کو اپنی جانب مائل کر کے کہا کہ تم ابومسلم کو خراسان جانے سے روک کر اول میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو تو میں تم کو خراسان کی حکومت اس کام کے صلہ میں دے دوں گا‘ ابواسحاق یہ سن کر آمادہ ہو گیا اور رخصت ہو کر ابومسلم کے پاس آیا اور اس کو منصور کے پاس جانے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ ابومسلم اپنے لشکر کو حلوان میں مالک بن ہثیم کی افسری میں چھوڑ کر تین ہزار فوج کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوا‘ جب ابومسلم مدائن کے قریب پہنچا تو ابومسلم کے پاس منصور کے اشارے کے موافق ایک شخص پہنچا اور ملاقات کرنے کے بعد ابومسلم سے کہا کہ آپ منصور سے میری سفارش کر دیں کہ وہ مجھ کو کسکر کی حکومت دے دے‘ نیز یہ کہ وزیرالسلطنت ابوایوب سے منصور آج کل سخت ناراض ہے آپ ابوایوب کی بھی سفارش کر دیں‘ ابومسلم یہ سن کر خوش ہو گیا اور اس کے دل سے رہے سہے خطرات سب دور ہو گئے۔ ابو مسلم دربار میں عزت و احترام کے ساتھ داخل ہوا اور عزت کے ساتھ رخصت ہو کر قیام گاہ پر آرام کرنے گیا‘ دوسرے روز جب دربار میں آیا تو منصور نے پہلے سے عثمان بن نہیک‘ شبیب بن رواح ‘ ابوحنیفہ‘ حرب بن قیس وغیرہ چند شخصوں کو پس پردہ چھپا کر بٹھا دیا اور حکم دے دیا تھا کہ جب میں اپنے ہاتھ پر ہاتھ ماروں تو تم نکل کر فوراً ابومسلم کو قتل کر ڈالنا‘ چنانچہ ابومسلم دربار میں حاضر ہوا‘ خلیفہ منصور نے باتوں میں اس سے ان دو تلواروں کا حال دریافت کیا جو ابومسلم کو عبداللہ بن علی سے ملی تھیں‘ ابومسلم اس وقت انہیں تلواروں میں سے ایک کو اپنی کمر سے لگائے ہوئے تھا‘ اس نے کہا کہ ایک تو یہ موجود ہے‘ منصور نے کہا ذرا میں بھی دیکھوں‘ ابومسلم نے فوراً خلیفہ منصور کے ہاتھ میں تلوار دیدی‘ وہ تھوڑی دیر تک اس کو دیکھتا رہا پھر اس کو اپنے زانوں کے نیچے رکھ کر ابومسلم سے اس کی حرکات کی شکایت کرنے لگا‘ پھر سلیمان بن کثیر کے قتل کا ذکر کیا اور کہا کہ تو نے اس کو کیوں قتل کیا حالانکہ وہ اس وقت سے ہمارا خیر خواہ تھا جب کہ تو اس کام میں شریک بھی نہ ہوا تھا۔ ابو مسلم اول خوشامدانہ اور عاجزانہ لہجہ میں معذرت کرتا رہا لیکن دم بدم منصور کے طیش و غضب کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر جب اس کو یقین ہو گیا کہ آج میری خیر نہیں ہے تو اس نے جرأت سے جواب دیا کہ جو آپ کا جی چاہے کیجئے‘ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا‘ منصور نے ابومسلم کو گالیاں دیں اور ہاتھ پر ہاتھ مارا‘ تالی کے