تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان لوگوں کو جو ابو ہاشم کی خلافت کے لیے کوشش کر رہے تھے تاکیدی نصیحت کی کہ آئندہ محمد بن علی کے زیر فرمان کوشش کریں اور محمد بن علی کو اپنا پیشوا مانیں۔ علویوں کا ایک زبردست گروہ جب عباسیوں میں شامل ہو گیا تو عباسیوں نے پہلے سے زیادہ ہمت کے ساتھ باقاعدہ کوششیں شروع کیں اور قریباً تمام طاقت سازش کنندوں کی عباسیوں کے ہاتھ میں آگئی۔ محمد بن علی عباسی اس زبردست سازشی جماعت کے پیشوا تھے جب ان کا انتقال ۱۲۴ھ میں ہوا تو ان کے بیٹے امام ابراہیم ان کے جانشین ہوئے‘ امام ابراہیم نے اس سازش کو پہلے سے زیادہ وسیع اور باقاعدہ اصولوں پر قائم کر کے ہر ایک علاقہ کے لیے الگ الگ موزوں داعی مقرر کئے اور نہایت نظم و ترتیب کے ساتھ عراق‘ خراسان‘ فارس‘ شام‘ حجاز وغیرہ ممالک اسلامیہ میں اپنی تحریک کا ایک جال پھیلا دیا۔ امام ابراہیم کو خوش قسمتی سے ایک ایسا شخص مل گیا جس نے آئندہ چل کر بہت جلد اس سازش کو ۱؎ یہ تحریک کس قدر خطرناک تھی‘ متذکرہ بالا امور سے ہی اس کا کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔ کامیابی تک پہنچانے کا تمام کام اپنے ذمہ لے لیا‘ وہ شخص ابومسلم خراسانی تھا۔ امام ابراہیم نے ابومسلم خراسانی کو عراق و خراسان کے تمام دعاۃ کا سردار بنا کر سب کو حکم دیا تھا کہ ابومسلم کی ماتحتی میں کام کریں اور ابومسلم کے ہر ایک حکم کو مانیں‘ ابومسلم کے ساتھ ان کی خط وکتابت رہتی تھی اور وہ ابومسلم کو اپنے ہر ایک منشاء سے مطلع کرتے رہتے تھے‘ اس میں یہ فائدہ تھا کہ امام ابراہیم کو ہر ایک شخص سے خود خط و کتابت نہیں کرنی پڑتی تھی ۱۳۰ ھ میں امام ابراہیم کی گرفتاری اور وفات کے بعد ان کا جانشین عبداللہ سفاح ان کا بھائی ہوا جو امام ابراہیم کی طرح ذی ہوش و عقلمند تھا ادھر ابومسلم کی قابلیت اور طاقت آخری نتائج پیدا کرنے والی تھی‘ ابومسلم نے جلد جلد خراسان میں طاقت و قوت حاصل کرنی شروع کی‘ امام ابراہیم کی گرفتاری اور بنوامیہ کو اس عباسی تحریک کی واقفیت اس وقت ہوئی جب کہ ابومسلم خراسان پر گویا مستولی ہو چکا تھا اور اس تحریک کے افشاء ہونے کا مناسب وقت آچکا تھا لہٰذا عباسیوں کو کسی ناکامی و نقصان کا سامنا نہ ہوا۔ جب ابومسلم کو خراسان میں امام ابراہیم کی وفات کے بعد قوت و اقتدار حاصل ہونے لگا اور بنوامیہ کی خلافت کے برباد ہونے کی علامت نمایاں طور پر نظر آنے لگیں تو بنی عباس اور علویوں کے خیرخواہوں اور ان کی سازشی کاروائیوں میں حصہ لینے والوں نے اپنے خاص خاص سربرآوردہ ممبروں کو بماہ ذی الحجہ ۱۳۰ھ میں جبکہ وہ بتقریب حج مکہ میں آئے ہوئے تھے ایک مکان میں جمع کیا اور یہ مسئلہ پیش ہوا کہ بنوامیہ کی بربادی اور خلافت ان کے قبضہ سے نکالنے کی کوششیں بہت جلد آخری کامیابی حاصل کرنے والی ہیں لہٰذا یہ طے ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ کس کو بنایا جائے گا‘ اس مجلس میں ابوالعباس عبداللہ سفاح کا بھائی ابوجعفر منصور بھی موجود تھا اور اولاد علی رضی اللہ عنہ میں سے بھی چند لوگ تشریف رکھتے تھے‘ ابو جعفرمنصور نے بلا توقف کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہئے‘ حاضرین مجلس نے اس بات کو پسند کیا اور اتفاق رائے سے محمد بن عبداللہ بن حسن بن علی المعروف بہ نفس ذکیہ کو منتخب کیا گیا۔ یہ نہایت ہی نازک موقعہ تھا‘ کیونکہ بنو امیہ کی حکومت کو مضمحل کرنے اور خراسان