تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ جب پیش آیاتو حکومت بنوامیہ کا تاج دار ایک زبردست شخص تھا‘ اس لیے وہ حکومت امیہ کی اس کمزوری کو جلد دور کر کے نہ صرف اقتدار رفتہ ہی کو قائم کر سکا بلکہ اس نے پہلے سے بھی زیادہ لوگوں کو مرعوب و خوفزدہ بنا دیا‘ اب ہاشمیوں کے لیے تلوار کے استعمال اور طاقت کے اظہار کا کوئی موقع باقی نہ رہا تھا انہوں نے اپنے جوش انتقام کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان کاروائیوں سے فائدہ اٹھایا‘ جو وہ عبداللہ بن سبا اور اس کے اتباع کی دیکھ چکے تھے اور جن کے سبب وہ صفین اور اذرح میں ناکام ہوچکے تھے۔ ہاشمیوں میں صرف دو ہی گھرانے سردار و مقتدا پائے جاتے تھے‘ ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور دوسری سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی اولاد‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے اورسیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا تھے‘ یہ دونوں گھرانے اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں شمار ہوتے تھے اس لیے ان کی عظمت و سیادت سب کو تسلیم تھی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چونکہ بنوامیہ کے مقابلہ میں براہ راست مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا‘ اس لیے علویوں میں عباسیوں کی نسبت زیادہ جوش تھا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سبب علویوں میں سے فاطمیوں کو زیادہ جوش تھااور وہ زیادہ درپے انتقام تھے۔ علویوں میں دو گروہ تھے‘ ایک وہ جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کو مستحق خلافت سمجھتے تھے‘ ایک وہ جو محمد بن الحنفیہ کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار مانتے تھے‘ تیسرا گروہ عباسیوں کا تھا۔ سب سے زیادہ طاقتور گروہ فاطمیوں یا حسینیوں کا تھا کیونکہ واقعہ کربلا کی وجہ سے ان لوگوں کو زیادہ ہمدردی حاصل تھی‘ دوسرے یہ کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنھا کی اولاد ہونے کے سبب بھی وہ زیادہ محبوب و مکرم تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ محمد بن الحنفیہ کا تھا اس کے بعد عباسیوں کا مرتبہ تھا‘ بعد میں فاطمیوں کے اندر بھی دو گروہ ہو گئے تھے‘ ایک وہ جو زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنھما کے طرف دار تھے اور وہ زیدی کہلائے‘ دوسرے وہ جنہوں نے اسماعیل بن جعفر صادق کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ اسماعیلی کے نام سے مشہور ہوئے۔ مذکورہ بالا تینوں گروہ بنوامیہ کے مخالف اور تینوں مل کر اہل بیت کے ہوا خواہ کہلاتے تھے‘ زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنھما اور ان کے بیٹے یحییٰ کے مقتول ہونے کا حال اوپر پڑھ چکے ہو‘ محمد بن الحنفیہ کی کوششوں اور مختار کی کوفہ میں کاروائیوں کا ذکر بھی اوپر آچکا ہے‘ علویوں کو جب کبھی بھی ذرا سا موقع ملا‘ انہوں نے خروج میں تامل نہیں کیا‘ مگر اکثر ناکام ہوتے رہے‘ علویوں کی ان کارروائیوں اور ان کے انجام سے عباسی نصیحت و عبرت حاصل کرتے رہے اور انہوں نے بنوامیہ کے خلاف اپنی کوششوں کو بڑی احتیاط اور مآل اندیشی کے ساتھ جاری رکھا۔ ان تینوں گروہوں نے اپنے لیے ایک ہی راہ عمل تجویز کی کہ پوشیدہ طور پر لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے اور مخفی طور پر لوگوں سے بیعت لی جائے تاکہ بنوامیہ کے مقابلے اور مقاتلے کے قابل طاقت فراہم ہو جائے‘ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنے لیے مشنری اور مبلغین ملکوں میں پھیلا دیے‘ جو نہایت مخفی طریقوں سے اہل بیعت کی محبت کا وعظ کہتے اور بنوامیہ کی حکومت کے عیوب و نقائص لوگوں کو