تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوا اور اپنی شہادت سے پہلے پہلے اپنے بھائی حجاج بن عبداللہ حکمی کو اپنا قائم مقام بنا گیا‘ جراح کی شہادت سے ترکمانوں اور ترکوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور اپنی کامیابی کی خوشی اور جوش میں وہ بڑھتے ہوئے موصل کے قریب تک پہنچ گئے۔ یہ خبر دارالخلافہ دمشق میں پہنچ تو ہشام بن عبدالملک نے سعید حرشی کو بلا کر کہا کہ دیکھو جراح ترکوں سے شکست کھا کر بھاگ نکلا‘ سعید نے کہا جراح کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف شکست کھا کر بھاگنے سے زیادہ ہے وہ ترکوں سے شکست کھا کر فرار کی ندامت گوارا نہیں کر سکتا‘ میرا خیال یہ ہے کہ وہ شہید ہوگیا‘ ہشام نے کہا کہ اب کیا تدبیر کی جائے‘ سعید حرشی نے کہا کہ آپ مجھ کو صرف چالیس آدمیوں کے ساتھ اس طرف روانہ کر دیجئے اور روزانہ چالیس آدمی روانہ کرتے رہیئے‘ نیز ایک حکم عام اس طرف کے تمام امیروں اور عاملوں کے نام بھیج دیجئے کہ وہ بوقت ضرورت میری مدد کریں۔ ہشام نے اس تجویز کو پسند کیا اور سعید چالیس آدمیوں کے ساتھ روانہ ہو گیا‘ راستے میں جراح کے ہمراہی ملے جو تباہ حال آرہے تھے‘ ان کو بھی سعید نے اپنے ہمراہ لیا اور راستے میں جہاں جہاں مسلمان قبیلوں پر سے اس کا گزر ہوا جہاد کی ترغیب لوگوں کو دیتا گیا‘ اس طرح اس کے ساتھ ہر جگہ سے لوگ شامل ہوتے رہے‘ مقام خلاط پر پہنچ کر سعید کا ترکوں سے مقابلہ ہوا‘ نہایت خوں ریز جنگ کے بعد سعید نے ترکوں کو شکست دی‘ مسلمانوں کے ہاتھ خوب مال غنیمت آیا۔ اس فتح کے بعد سعید نے مقام برزغہ میں قیام کیا‘ ترکوں نے مقام ورثان کا محاصرہ کر رکھا تھا‘ سعید نے برزغہ سے اہل ورثان کے پاس اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر بھیجی اور ترکوں کو پیغام دیا کہ ورثان کا محاصرہ اٹھا لو ورنہ ہم حملہ آور ہوتے ہیں۔ ترک ڈر کے مارے خود ہی محاصرہ اٹھا کر چل دئیے‘ سعید ورثان میں داخل ہوا اس کے بعد وہ اردبیل تک بڑھتا چلا گیا‘ وہاں جا کر قیام‘ معلوم ہوا کہ وہاں سے چار کوس کے فاصلے پر ترکوں کا دس ہزار لشکر پڑا ہے اور ان کے پاس پانچ ہزار مسلمان قیدی گرفتار ہیں سعید نے رات ہی کو حملہ کیا اور ان دس ہزار ترکوں کو قتل کر کے مسلمان قیدیوں کو آزاد کرا لیا‘ اگلے روز باجروان کی طرف روانہ ہوا‘ ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ ترکوں کا ایک اور لشکر قریب ہی خیمہ زن ہے‘ سعید نے اسی رات ان پر بھی حملہ کیا اور سب کو قتل کر کے مسلمان قیدیوں کو چھڑایا‘ ان ہی قیدیوں میں جراح کے لڑکے اور اہل وعیال بھی تھے۔ اس کے بعد پھر ترکوں نے متفق ہو کر ایک بڑا لشکر مقابلہ کے لیے فراہم کیا‘ مقام زرند میں دونوں لشکر مقابلے پر آئے‘ سخت خوں ریز لڑائی ہوئی اور مسلمانوں کے مقابلے سے ترکوں کو پشت پھیر بھاگنا پڑا‘ اس شکست کی تلافی کے لیے ایک مرتبہ پھر ترکوں نے مقابلہ کی تیاریاں کیں اور انتقام لینے کی غرض سے بہت سے ترک قبائل مارنے مرنے پر تیار ہو کر نہر بیقان کے کنارے مجتمع ہوئے‘ سعید حرشی نے پہنچ کر لڑائی شروع کر دی‘ سخت لڑائی ہوئی‘ میدان جنگ میں بہت سے ترک مارے گئے‘ جو بچ کر فرار ہوئے ان میں اکثر نہر میں ڈوب کر مر گئے۔ اس فتح کے بعد حرشی مقام باجروان میں واپس آکر مقیم ہوا‘ اور خلیفہ ہشام بن عبدالملک کو فتح وکامیابی کا بشارت نامہ روانہ کیا اور مال غنیمت کا خمس بھی خلیفہ کی خدمت میں بھیجا‘ ہشام بن عبدالملک نے اس کے بعد سعید حرشی کو دمشق میں واپس بلوا لیا اور اپنے