تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی نرم مزاجی اور مروان بن الحکم کے اقتدار سے فائدہ اٹھا کر بنی امیہ نے اپنی طاقت اور اثر کو یک لخت اس قدر بڑھا لیا‘ کہ تمام عالم اسلامی پر چھا گئے‘ اور اپنی سیادت تمام ملک عرب پر قائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہو گئے جس کو وہ عہد جاہلیت میں بنو ہاشم کے مقابلہ میں قائم نہ کر سکے تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ نیز منافقوں اور مسلم نما یہودیوں کی سازشوں نے ان کو اور بھی امداد پہنچائی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے عہد خلافت میں زیادہ پریشانیوں اور دقتوں کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑا کہ وہ ہاشمی تھے‘ تمام اہل عرب کی نگاہوں میں بنی ہاشم اور بنو امیہ کی رقابتوں کے نقشے گھومنے لگے‘ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہر اس کوشش کو جو وہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے خلاف کرتے تھے‘ اسی رقابت پر محمول کر کے ان کا پورے طور پر ساتھ نہ دیا‘ کیوں کہ وہ ان دونوں قبیلوں کی پرانی رقابتوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں کوئی حصہ نہیں لینا چاہتے تھے۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جگہ کوئی دوسرا غیر ہاشمی شخص خلیفہ ہوتا‘ تو یقینا اس کو عرب قبائل کی زیادہ امداد حاصل ہوتی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اگر خود خلیفہ نہ ہوتے‘ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو شکست دینے اور بنی امیہ کو نیچا دکھانے میں زیادہ کام کر سکتے‘ اور اس غیر ہاشمی خلیفہ کو کامیاب بنانے میں اپنی قوت اور اثر کو بہت زیادہ پاتے۔ اس موقعہ پر بے اختیار سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے وہ آخری الفاظ یاد آجاتے ہیں‘ جو انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فوت ہوتے وقت بطور وصیت سنائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک خلافت پہنچی تو تلواریں میانوں سے نکل آئیں‘ اور یہ معاملہ طے نہ ہوا‘ اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں۔۱؎ ۱؎ نا معلوم حسن رضی اللہ عنہ کے یہ کلمات سنداً ثابت ہیں یا نہیں‘ یہ معاملہ مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ البتہ ہمیں حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ فتنوں کے وقت مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائیں گے۔ (صحیح بخاری‘ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث ۳۷۴۶) اس لیے ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ وہ ایسے الفاظ زبان سے نہیں نکال سکتے جن سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہوں‘ والعلم عنداللہ! سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کی صداقت پر مستقبل جو آج تک ماضی بن چکا ہے‘ اپنی مہر صداقت ثبت کر چکا ہے‘ خلافت راشدہ کے بعد تقریباً نوے سال تک بنو امیہ نے دمشق کو دارالخلافہ بنا کر تمام عالم اسلام پر حکومت کی‘ ادھر اندلس میں بھی کئی سو سال تک ان کی شاندار خلافت و حکومت قائم رہی اور خاندان بنو عباس کی حکومت بغداد میں پانچ سو برس سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی۔ بنو عباس بنی ہاشم تو ضرور ہیں لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا کی اولاد ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی کی اولاد نہیں ہیں۔ (یعنی صرف سادات کو خاندان نبوت کہا جا سکتا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خون سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے ذریعہ شامل ہے‘ لیکن عباسیوں میں خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خون کی آمیزش نہیں ہے‘ لہٰذا ان کوخاندان نبوت نہیں کہا جا سکتا)۔ مصر کے ایک حکمران خاندان (بنو عبید) نے اپنے آپ کو فاطمی۱؎ کہا‘ لیکن محققین نے ان کو اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا پایا‘ ہندوستان میں بھی ایک حکمران خاندان گذرا ہے‘ جن کو خاندان سادات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ مگر یہ حقیت عالم آشکارا ہے کہ خضر خاں حاکم ملتان جو اس خاندان کا مورث اعلیٰ تھا ہر گز سید نہ تھا‘ اس کے سید مشہور ہونے