تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شروع کی گئی‘ اور طرح طرح سے ذلیل کیا گیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ جو مسلمان ہوچکے تھے پھر مرتد ہو کر باغی ہوگئے اور از سرنو مقابلہ پر آمادہ ہو کر خاقان سے خواہاں امداد ہوئے‘ خاقان اپنی زبردست فوجیں لے کر آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک جدید سلسلۂ جنگ شروع ہوگیا‘ اشرس خود مقابلہ پر پہنچا‘ طرفین سے خوب داد شجاعت دی گئی‘ بہت سے مسلمان اور بہت سے ترک تہ تیغ ہوئے آخر اس خوں ریز سلسلۂ جنگ کا خاتمہ صلح پر ہوا۔اس جگہ ان لوگوں کو جو اسلام کی اشاعت کو بزور شمشیر بتاتے ہیں غور وتامل کرنا چاہیئے‘ کہ مسلمانوں نے اپنے زور شمشیر کو اسلام کی اشاعت میں صرف کیا یا ان کے بعض نادان حکمران نے زور شمشیر کو اسلام کی اشاعت کے روکنے میں صرف کیا ہے۔ ۱۱۱ھ میں ہشام بن عبدالملک نے اشرس بن عبداللہ کو جب کہ وہ ترکوں اور سمرقندیوں سے مصروف پیکار تھا معزول کر کے جنید بن عبدالرحمن بن عمر بن حرث بن خارجہ بن سنان بن ابی حارثہ مری کو مامور کیا‘ جنید جب خراسان کے دار الصدر شہر مرو میں پہنچا تو اس نے وہاں بجائے اشرس کے اس کے نائب خطاب بن محزر سلمی کو پایا‘ وہ ایک روز قیام کر کے ماوراء النہر کی طرف روانہ ہوا اور اپنی جانب سے محشر بن مزاحم سلمی کو مرو میں چھوڑ کر اور خطاب کو اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا‘ اور اشرس کے ساتھ خاقان واہل بخارا پر فتح یاب ہو کر مرو کی جانب ۱۱۱ ھ کے آخری ایام میں واپس آیا‘ مرو میں آکر اس نے قطن بن قتیبہ بن مسلم کو بخارا پر‘ ولید بن قعقاع عبسی کو ہرات پر‘ اور مسلم بن عبدالرحمن باہلی کو بلخ کی حکومت پر مامور کیا‘ لیکن چند ہی روز کے بعد مسلم بن عبدالرحمن کو معزول کر کے یحیٰ بن ضبیعہ کو بلخ کا حاکم بنایا۔ ۱۱۲ ھ میں جنید نے طخارستان کے باغیوں کی سرکوبی وسزا دہی کے لیے عمارہ بن مریم کو ایک طرف سے اٹھارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ اور ابراہیم بن بسام کو دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ دوسری طرف سے روانہ کیا اور خود بھی اس روانہ ہونے کی تیاری کرنے لگا‘ ترکوں کو جب اس کا حال معلوم ہوا تو وہ خاقان کو اپنا سپہ سالار اعظم بنا کر اور بہت بڑا لشکر جمع کر کے سمرقند پر حملہ آور ہوئے‘ اس زمانہ میں سمر قند کا عامل سورہ بن الجبر تھا‘ اس نے جنید کے پاس خبر بھیجی کہ خاقان نے اپنے زبردست لشکر کے ساتھ سمرقند کی طرف حرکت کی ہے‘ میری مدد کے لیے جلد فوج بھیجے۔ محشر بن مزاحم وغیرہ نے جنید کو مشورہ دیا‘ کہ سمرقند کی طرف آپ کو کم از کم پچاس ہزار فوج کے ساتھ جانا چاہئے‘ کیونکہ ترکوں کا مقابلہ آسان نہیں ہے‘ لیکن آج کل تمام فوج منتشر ہوچکی ہے‘ آپ کے پاس بہت ہی تھوڑے سے آدمی ہیں‘ اس حالت میں آپ سمرقند کا ارادہ نہ کریں‘ جنید نے سرد آہ کھینچ کر کہا‘ کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرا بھائی سورہ بن الجبر وہاں مصیبت میں گرفتار ہو اور میں یہاں پچاس ہزار فوج کی فراہمی کے انتظار میں بیٹھا ہوں‘ یہ کہہ کر سمرقند کی طرف روانہ ہوا۔ خاقان اور ترکوں کو معلوم ہوا کہ جنید خود سمرقند کی طرف آرہا ہے تو وہ تھوڑی سی فوج سمرقند کے محاصرہ پر چھوڑ کر جنید کے سد راہ ہوئے‘ راستے ہی میں روک کر لڑائی کا بازار گرم کیا‘ جنید اور اس کے مٹھی بھر ہمرائیوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے اور ایسی چیقلش مردانہ دکھائی کہ ترکوں کے چھکے چھوٹ گئے‘ بڑے بڑے نامی سردار مسلمانوں میں سے بھی شہید ہوئے اور ترکوں کی لاشوں کے تو انبار لگ گئے۔ ترکوں کی فوج اور خاقان کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ تھی‘ جنید نے پہاڑ کو پس پشت