تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دی۔ اشرس نے خراسان میں پہنچ کر اپنے نیک سلوک اور خوش اخلاقی سے سب کو خوش کر لیا‘ اشرس نے ۱۱۰ھ میں ابوالصیداء‘ صالح بن ظریف اور ربیع بن عمران تمیمی کو سمرقند وماوراء النھر کی طرف اس غرض سے روانہ کیا کہ وہاں جا کر لوگوں کو سلام کی خوبیاں سمجھائیں اور شرک کی برائیوں سے آگاہ کر کے راہ راست پر لائیں‘ اس علاقے میں آئے دن بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں اور حکومت اسلامیہ نوک شمشیر کے ذریعہ قائم تھی‘ اشرس نے اس کا بہترین علاج یہی تجویز کیا کہ ان لوگوں کو اسلام سے آگاہ کر کے مسلمان بنایا جائے تو ان کے اندر جس قدر عیوب ہیں وہ خود بخود دور ہوجائیں گے اور حکومت اسلامیہ کے لیے پھر کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا‘ چنانچہ اس دعوت اسلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے۔ سمر قند کے علاقہ پر حسن بن عمرطہ کندی صیغۂ مال کا افسر مقرر تھا۔ جب لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تو اس سے جزیہ کی آمدنی جو ذمیوں سے لیا جاتا تھا کم ہونے لگی‘ ذمیوں کے نومسلم ہونے سے جو آمدنی میں کمی ہوئی تو حسن بن عمرطہ نے اس کی شکایت اشرس بن عبداللہ سلمی گورنر خراسان کو لکھی‘ اشرس بن عبداللہ نے جواب دیا کہ بہت سے لوگ ممکن ہے کہ محض جزیہ کی وجہ سے مسلمان ہوگئے ہوں اور دل سے انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔ لہٰذا تم دیکھو کہ جس نے ختنہ کرالی ہو اور نماز پڑھتا ہو اس کو جزیہ معاف کر دو‘ ورنہ چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے اس سے ضرور جزیہ وصول کرو۔ اشرس اگرچہ خود اس کو پسند نہ کرتا تھا‘ مگر خالد اور ہشام کا منشاء یہی تھا‘ کہ نو مسلموں کے ساتھ سختی سے محاسبہ ومعاملہ کیا جائے‘ اشرس کے پاس سے اس جواب کے آنے پر حسن بن عمرطہ نے اس حکم کی تعمیل میں اس لیے تامل کیا‘ کہ یہ شریعت اسلام کے موافق نہ تھا‘ اشرس بن عبداللہ نے حسن بن عمرطہ کو صیغۂ مال سے معزول کر کے ہانی ابن ہانی کو مامور کیا اور سمر قند کی حکومت و سپہ سالاری پر اس کو قائم رکھا۔ ہانی ابن ہانی نے نومسلموں سے آکر جزیہ وصول کرنا شروع کیا‘ ابوالصیداء نے نومسلموں کو جزیہ دینے اور ہانی کو جزیہ لینے سے روکا‘ ہانی نے اشرس کو خط لکھا‘ کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں‘ انہوں نے مسجدیں بھی بنالی ہیں‘ ان سے جزیہ کیسے وصول ہوسکتا ہے‘ اس کے جواب میں ہانی کے پاس حکم پہنچا‘ کہ تم ان تمام لوگوں سے جو جزیہ دیا کرتے تھے جزیہ وصول کرو‘ چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں۔ یہ دیکھ کر ابوالصیداء نے نومسلموں کی سات ہزار جمیت لے کر سمر قند سے چند فرسنگ کے فاصلے پر قیام کیا اور مقابلے پر مستعد ہوگیا‘ چوں کہ ابوالصیداء کے پاس وجہ مخالفت معقول تھی‘ لہٰذا بہت سے مسلمان سردار حاکم سمر قند کی فوج میں سے ابوالصیداء کے پاس نومسلموں کی حمایت کے لیے چلے گئے‘ اشرس نے یہ حالت دیکھ کر حسن بن عمرطہ کو سمرقند کی حکومت سے معزول کر کے محشر بن حزاحم سلمی کو مامور کیا‘ محشر بن مزاحم نے سمرقند پہنچ کر ابوالصیداء اور اس کے ہمراہی سرداروں کو صلح کے بہانے دھوکے سے بلا کر قید کر دیا اور اشرس کے پاس روانہ کر دیا۔ نومسلموں نے ابوفاطمہ کو اپنا سردار بنا لیا‘ آخر مجبور ہو کر ان مسلمانوں کو جزیہ کی معافی کا وعدہ دیا گیا‘ اور جب ان کی جمعیت اور اتفاق جاتا رہا تو بتدریج ان پر سختی