تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور بنو ہاشم کی قدیمی رقابت کا کوئی ذرا بھی شائبہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذاتی قابلیتوں پر نسلی و خاندانی تعلقات کو ترجیح دیتے‘ تو بنی امیہ کے افراد کو اس طرح صوبوں کے عامل ہر گز مقرر نہ فرماتے‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نسلی امتیازات کو ذاتی قابلیت پر ہرگز ترجیح نہیں دیتے تھے‘ ہاں نسلی امتیازات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تسلیم کرتے تھے‘ مگر اسی حد تک کہ جن خاندانوں میں انتظامی قابلیت اور سرداری کی لیاقت ہمیشہ زیادہ پائی گئی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی انتظامی کاموں اور سپہ سالاریوں کے لیے ان ہی خاندانوں کے افراد میں سے قابل آدمیوں کو زیادہ تلاش کیا۔ بنو امیہ اور بنو ہاشم دونوں قبیلوں کی پرانی رقابت اسلام نے ابھی نئی نئی مٹائی تھی‘ لہٰذا احتیاط اس کی متقاضی تھی‘ کہ ان کو خلافت کے معاملہ میں اور کچھ دنوں ایسا موقع نہ دیا جاتا کہ وہ اپنی فراموش شدہ رقابت کو پھر تازہ کر سکیں‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خطرہ کا بخوبی احساس فرمایا‘ اور اپنے بعد محض قابلیت کی بنا پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نمازوں کا امام بنا کر ان کی خلافت کے لیے اشارہ فرمایا‘ جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی فہم و فراست والی جماعت نے بخوبی عمل کیا۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بعد ایسا جانشین مقرر فرمایا جو قابلیت کے اعتبار سے سب پر فائق اور مذکور بالا دونوں قبیلوں میں سے کسی ایک سے بھی تعلق نہ رکھتا تھا۔ اسی طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد اگر سیدنا ابوعبیدہ یا سالم مولی ابی حذیفہ میں سے کوئی ایک خلیفہ ہوتا جیسا کہ عمر فاروق کی آرزو تھی‘ تو یہ مردہ رقابت دوبارہ زندہ نہ ہوئی‘ مگر یہ دونوں بزرگ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے پہلے وفات پا چکے تھے۔ پھر اگر ہر شش اصحاب شوریٰ اپنے آپ میں سے کسی کو انتخاب کرنے میں صرف اس اصول پر کاربند ہوتے‘ کہ کوئی بنی امیہ اور کوئی بنی ہاشم خلیفہ نہ بنایا جائے‘ تو آئندہ پیش آنے والے خطرات ممکن ہے کہ پیش نہ آتے اور کم از کم ان دونوں قبیلوں کو اپنی فراموش شدہ رقابت یاد نہ آتی۔ اگر علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ ہوتے تب بھی بہت زیادہ ممکن تھا کہ یہ آتش خاموش دوبارہ مشتعل نہ ہوتی کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سے یہ توقع نہ ہوتی کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ بنوہاشم کی اس طرح غیر معمولی اور قابل احساس رعایت کرتے جیسی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بنو امیہ کی ہوئی۔ بہرحال ہم کویہ ایمان رکھنا چاہیئے‘ کہ جو کچھ ہوا مشیت الٰہی کے ماتحت ہوا اور یہی ہونا چاہیئے‘ کیونکہ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم وقوع یافتہ اعمال و افعال کے نتائج پر اپنی نابودہ وغیر واقع شدہ تجاویز کے نتائج کو یقینی طور پر ترجیح دے سکیں۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں‘ کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کی رقابت کا عہد اسلامی میں دوبارہ پیدا ہو کرتا دیر باقی رہنا اسلام کے لیے بے حد نقصان رساں تھا‘ اور آج تک اس رقابت کو قائم اور باقی رکھنے والے اور کسی خاندان یا قبیلہ کے تعلق کو خلافت کے لیے ضروری سمجھنے والے لوگ تعلیم اسلامی کے سخت مخالف اور اسلام کے لیے بے حد نقصان رساں ثابت ہو رہے ہیں۔ بنو امیہ اپنی ذاتی قابلیتوں کی وجہ سے پہلے ہی خلافت اسلامیہ کے ایک ضروری جزو بنے ہوئے تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر ہو جانے کے بعد ان