تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے پھر انہیں الفاظ کا اعادہ کیا‘ سلیمان نے کہا بتائو اب اس کے لیے کیا کہتے ہو‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے کسی قدر سکوت کے بعد کہا کہ امیر المومنین جس طرح اس نے آپ کو گالی دی ہے‘ آپ بھی اسے گالی دے لیجئے‘ خلیفہ سلیمان کہا نہیں یہ مناسب نہیں ہے‘ چنانچہ حکم دیا کہ اس … کو قتل کر دیا جائے وہ قتل کر دیا گیا۔ آپ وہاں سے نکلے تو راستے میں آپ کو خالد کوتوال ملا اور کہنے لگا‘ کہ آپ نے عجیب رائے دی‘ کہ امیر المومنین بھی اس کو ویسی ہی گالی دے دیں‘ جیسی اس نے دی ہے‘ میں تو ڈر گیا تھا‘ کہ کہیں امیر المومنین آپ کی گردن اڑانے کا حکم نہ دے دیں۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے پوچھا کہ اگر میری گردن اڑانے کا حکم ملتا تو میری گردن اڑا دیتے‘ خالد نے کہا کہ میں ضرور آپ کو قتل کر دیتا۔ جب سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کو خلافت پہنچی تو خالد حسب معمول اپنے مرتبہ پر آکر ان کے سامنے کھڑا ہوا‘ آپ نے خالد کو حکم دیا‘ کہ یہ تلوار رکھ دو اور اپنے آپ کو معزول سمجھو‘ پھر عمرو بن مہاجر انصاری کو بلایا اور کوتوال مقرر کر کے کہا کہ میں نے اس کو اکثر قرآن شریف پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کو ایسی جگہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جہاں کوئی اس کو نہ دیکھ سکتا تھا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نزاع‘ غصہ اور طمع سے دور رہا وہ فلاح پا گیا‘ کسی نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے کہا کہ اگر آپ اپنے لیے کوئی لحاظ مقرر کر لیں اور کھانے پینے میں احتیاط رکھیں تو بہت اچھا ہو‘ آپ نے فرمایا کہ الٰہی اگر میں قیامت کے سوا کسی اور چیز سے ڈرتا ہوں تو مجھے اس سے امن میں نہ رکھنا۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: کہ لوگو اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘ اور طلب رزق میں مارے مارے نہ پھرو‘ رزق مقسوم اگر پہاڑ یا زمین کے نیچے بھی دبا ہوا ہو گا تو پہنچ کر رہے گا‘ ازہر کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو خطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے آپ کی قمیص میں پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے عمرو بن قیس سکونی کو لشکر صائفہ کا سپہ سالار بنا کر روانہ کیا‘ اور رخصت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں کے نیک لوگوں کی بات سننا اور بدوں سے درگزر کرنا‘ جاتے ہی ان کا قتل شروع نہ کر دینا اور آخر میں بدنامی نہ اٹھانا‘ متوسط حالت اختیار کرنا کہ وہ تمہارا مرتبہ بھول نہ جائیں اور تمہاری باتیں سننے کی تمنا کرتے رہیں۔ جراح بن عبداللہ عامل خراسان نے آپ کو لکھا کہ اہل خراسان بہت ناہموار لوگ ہیں۔ یہ بغیر تلوار کے سیدھے نہ ہوں گے‘ آپ نے جواب لکھا کہ تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ اہل خراسان بغیر تلوار کے اصلاح پر نہ آئیں گے‘ عدل اور حق رسانی وہ چیزیں ہیں کہ ان سے خود درست ہو جائیں گے‘ پس ان میں انہیں دو چیزوں کی اشاعت کرو۔ صالح بن جبیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ کبھی ایسا اتفاق ہوتا کہ میں کوئی بات امیرالمومنین رحمہ اللہ تعالی سے کہتا اور وہ مجھ سے ناراض ہو جاتے‘ ایک مرتبہ ان کے سامنے ذکر ہوا کہ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کی ناراضی سے ڈرنا چاہیئے‘ اور جب بادشاہ کا غصہ اتر جائے تب اس کے سامنے جانا چاہیئے‘ آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ صالح میں تجھے اجازت دیتا ہوں کہ تو میرے ساتھ اس کی پابندی نہ کر۔ ذہبی کہتے ہیں کہ میلان نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے عہد خلافت میں