تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ اگر تم خلافت اور حکومت لینے پر مستعد ہوتے تو میں ہر گز تمہارا مقابلہ نہ کرتا اور لڑائی کے پاس نہ جاتا بلکہ اپنے گھر بیٹھ جاتا‘ عبدالعزیز بن ولید نے کہا کہ واللہ میں آپ کے سوا کسی دوسرے کو مستحق خلافت نہیں سمجھتا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے تخت خلافت پر متمکن ہوتے ہی حکم جاری کیا‘ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی شخص ناشدنی الفاظ ہر گز استعمال نہ کرے‘ اب تک بنو امیہ میں عام طور پر رواج تھا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتے اور جمعہ کے خطبہ میں بھی ان پر لعن طعن سے دریغ نہ کرتے۔ حجاج بن یوسف ثقفی کو آپ ظالم سمجھتے تھے‘ اسی لیے سلیمان کے زمانے میں اس کے عاملوں اور متوسلوں کو جو حجاج کے نقش قدم پر چلتے تھے آپ نے معزول کرا دیا تھا‘ یزید بن مہلب گورنر خراسان کو آپ برا جانتے تھے‘ اور یہ آپ کو معلوم تھا ‘ کہ یزید بن مہلب نے جرجان کے علاقہ کا جزیہ وصول کر کے بیت المال میں نہیں بھجوایا ہے‘ چنانچہ آپ نے یزید بن مہلب کو طلب کیا‘ اس نے حاضر دربار ہو کر مذکورہ رقم کے داخل کرنے میں عذر و انکار اور حیلے حوالوں سے کام لیا‘ آپ نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کا مال ہے میں اس کو کیسے معاف کر سکتا ہوں‘ چنانچہ یزید بن مہلب کو آپ نے معزول کر کے قلعہ حلب میں قید کر دیا اور اس کی جگہ جراح بن عبداللہ حکمی کو خراسان کی گورنری پر بھیج دیا‘ مسلمہ بن عبدالملک اور اس کے لشکریوں کو جو رومیوں کے مقابلے میں اور قسطنطنیہ کے محاصرے میں مسلسل مصروف رہنے کے سبب شکستہ حال ہو رہے تھے آپ نے واپس بلوا لیا‘ چند روز کے بعد آپ کے پاس جراح بن عبداللہ حکمی گورنر خراسان کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ موالی کو (آزاد کردہ غلاموں کو) بلا وظیفہ ورسد جہاد پر بھیج دیتا ہے اور ذمیوں میں سے جو لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں ان سے بھی خراج وصول کر لیتا ہے‘ آپ نے یہ شکایت سن کر جراح بن عبداللہ کے پاس حکم بھیجا کہ: ’’جو شخص نماز پڑھتا ہو اس کو جزیہ معاف کر دو‘‘۔ لوگ یہ سنتے ہی جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے‘ جراح بن عبداللہ حکمی کو ان نو مسلموں کی طرف سے اطمینان نہ تھا‘ اس نے ختنہ کے ذریعہ سے لوگوں کا امتحان لیا‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے جراح کو لکھ بھیجا‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے داعی بنا کر مبعوث کیا ہے‘ خاتن بنا کر نہیں بھیجا‘ اس کے بعد آپ نے جراح بن عبداللہ کو اپنے پاس طلب کیا‘ جراح اپنی طرف سے عبدالرحمان بن نعیم کو اپنا نائب مقرر کر کے خود دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم کب خراسان سے روانہ ہوئے تھے‘ اس نے عرض کیا‘ کہ ماہ رمضان المبارک میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص تجھ کو ظالم بتاتا ہے وہ سچا ہے‘ تو نے کیوں نہ وہیں قیام کیا اور ماہ صیام کے گذرنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے عبدالرحمان بن نعیم کو حرب اور نمازوں پر امیر مقرر کر کے عبدالرحمان قشیری کو خراج کا افسر مقرر کیا۔ آذر بائیجان کے علاقہ پر دشمنوں نے حملہ کر کے مسلمانوں کو لوٹا‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے ابن حاتم باہلی کو فوج دے کر اس طرف روانہ کیا‘ اس نے وہاں پہنچ کر دشمنوں کو قرار واقعی سزا دی‘ اور اسلامی رعب از سر نو قائم کیا‘ سندھ کے لوگوں اور