تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حجاج کے پاس شام سے برابر امداد پہنچ رہی تھی۔ آخر ۱۵ جمادی الثانی ۸۳ھ کو ایک بہت بڑی فیصلہ کن جنگ ہوئی‘ اس لڑائی میں بعض اتفاقی واقعات کی بناپر حجاج کو فتح ہوئی‘ اور وہ فوراً کوفہ میں داخل ہو کر قابض ہو گیا‘ عبدالرحمان بن محمد نے وہاں سے بصرہ کا رخ کیا‘ اور حجاج کے عامل کو نکال کر فوراً بصرہ پر قبضہ کر لیا‘ حجاج نے کوفہ والوں سے بیعت لینی شروع کی اور جس نے تامل کیا اس کو بلا دریغ قتل کیا گیا۔ عبدالرحمان بن محمد کے پاس بصرہ میں ایک بڑا لشکر مجتمع ہو گیا‘ اور اس نے حجاج پر حملہ کرنے کا قصد کیا‘ حجاج نے یہ خبر سن کر کوفہ سے ایک زبردست شامی لشکر لے کر بصرہ کی طرف چلا‘ یکم شعبان ۸۳ ھ سے لڑائی شروع ہوئی‘ ۱۵ شعبان تک نہایت زور شور کے ساتھ لڑائی جاری رہی‘ حجاج کو کئی مرتبہ شکست ہوئی‘ لیکن وہ سنبھل گیا‘ حجاج کے لشکر میں عبدالملک بن مہلب بھی موجود تھا‘ ۱۵ شعبان کو جب کہ عبدالرحمان بن محمد نے حجاج کو شکست فاش دے دی تھی‘ عبدالملک بن مہلب نے اپنے ہمراہی سواروں کو لے کر اچانک عبدالرحمان پر حملہ کیا‘ جب کہ وہ حجاج کے کیمپ کو لوٹ کر اور میدان سے بھگا کر اپنے لشکر گاہ میں مظفر و فتح مند واپس آیا تھا‘ اس اچانک حملہ نے عبدالرحمان کے ہمرائیوں کو سراسیمہ کر دیا‘ اور وہ بھاگ پڑے‘ بہت سے خندقوں میں گر کر ہلاک ہوئے‘ بہت سے مارے گئے‘ بہت سے اپنی جان سلامت لے گئے۔ حجاج جو شکست پا چکا تھا‘ واپس آکر عبدالرحمان بن محمد کے لشکر گاہ پر قابض ہوا‘ اس شکست کے بعد عبدالرحمان بن محمد بصرہ سے سوس‘ سابور‘ کرمان‘ زرنج‘ بست ہوتا ہوا رتبیل شاہ ترکستان کے پاس چلا گیا‘ عبدالرحمان بن محمد کے ہمراہیوں نے سجستان کے قریب جمع ہو کر عبدالرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کو اپنی نمازوں کا امام بنایا اور اپنے ساتھیوں کو ہر طرف سے بلایا اور عبدالرحمان بن محمد کے پاس پیغام بھیجا‘ کہ تم واپس چلے آئو اور خراسان پر قبضہ کر لو‘ عبدالرحمان بن محمد نے کہا کہ خراسان پر یزید بن مہلب حکمران ہے‘ خراسان کا اس سے چھین لینا آسان کام نہیں‘ لیکن ان لوگوں نے باصرار عبدالرحمان بن محمد کو بلوایا‘ وہ رتبیل کے پاس سے رخصت ہو کر آیا‘ ان لوگوں کی تعداد بیس ہزار تھی‘ ان کو لے کر ہرات کی طرف گیا‘ ہرات پر قبضہ کیا‘ یزید بن مہلب فوج لے کر مقابلہ پر آیا‘ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے‘ تو لڑائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عبدالرحمان بن محمد کے لشکری میدان سے بھاگنے لگے‘ مجبوراً عبدالرحمان بن محمد نے اپنے چند ہمرائیوں سے مقابلہ کیا‘ بہت سے مقتول و گرفتار ہوئے‘ عبدالرحمان بن محمد وہاں سے سندھ کی طرف بھاگا‘ یزید نے اپنی فوج کو تعاقب کرنے سے روک دیا‘ عبدالرحمان بن محمد سندھ پہنچ گیا۔ یزید نے جنگ ہرات میں جن لوگوں کو قید کیا تھا‘ انہیں مرولے جاکر وہاں سے حجاج کے پاس بھیج دیا‘ انہیں قیدیوں میں محمد بن سعد بن ابی وقاص بھی تھے‘ جو حجاج کے حکم سے قتل کئے گئے۔ عبدالرحمان بن محمد بن اشعت سندھ سے رتبیل کے پاس چلا گیا اور وہاں جا کر سل کے عارضہ میں بیمار ہو گیا‘ حجاج نے رتبیل کو لکھا‘ کہ عبدالرحمان بن محمد کا سر کاٹ کر بھیج دو تو دس برس کا خراج معاف کردیا جائے گا‘ رتبیل نے اس بیمار کا سر کاٹ کر حجاج کے پاس بھیج دیا‘ یہ واقعہ ۸۴ھ کا ہے۔