تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبدالرحمان سیدھا بصرہ میں داخل ہوا‘ اہل بصرہ نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی‘ حجاج کو مہلب کی نصیحت یاد آئی‘ اس نے جو کچھ لکھا تھا‘ درست لکھا تھا‘ اہل بصرہ حجاج کی سخت گیری سے نالاں تھے‘ سب کے سب عبدالملک بن مروان کے خلع خلافت اورحجاج سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ واقعہ آخر ذی الحجہ ۸۱ھ کا ہے‘ شروع محرم ۸۲ھ سے حجاج اور عبدالرحمان بن محمد کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا‘ کبھی حجاج غالب ہوتا کبھی عبدالرحمان‘ لیکن ۲۹ محرم ۸۲ھ کو جو لڑائی ہوئی‘ اس میں عبدالرحمان بن محمد کو شکست فاش حاصل ہوئی‘ عبدالرحمان بن محمد بن اشعت اپنے شکست خوردہ ہمرائیوں کو لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور کوفہ دارالامارۃ پر قابض ہو گیا۔ اہل بصرہ نے عبدالرحمان بن محمد کی شکست کے بعد عبدالرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کے ہاتھ پر بیعت کی اور حجاج کے ساتھ مقابلہ و مقاتلہ کا سلسلہ جاری رکھا‘ پانچ چھ روز تک عبدالرحمان بن عباس نے حجاج کا خوب سختی سے مقابلہ کیا‘ اس فرصت سے عبدالرحمان بن محمد آسانی سے کوفہ پر قابض و متصرف ہو گیا‘ آخر عبدالرحمان بن عباس بھی معہ بہت سے بصریوں کے بصرہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا‘ اور عبدالرحمان بن محمد سے کوفہ میں جا ملا۔ حجاج بصرہ میں داخل ہوا اور حکیم بن ایوب ثقفی کو بصرہ میں حاکم مقرر کر کے خود کوفہ کی طرف روانہ ہوا‘ مقام دیر قرہ میں ڈیرے ڈالے ادھر کوفہ سے عبدالرحمان بن محمد نکلا اور دیرجم پر مورچے باندھے‘ طرفین سے خندقیں‘ مورچے‘ دمدمے باندھے گئے اور لڑائی شروع ہوئی‘ یہ لڑائی عرصہ تک جاری رہی‘ ہر روز دونوں طرف کی فوجیں میدان میں نکلتیں اور ایک دوسرے کو پیچھے ہٹاتیں‘ لیکن کوئی فیصلہ جنگ کا نہ ہوتا تھا‘ آخر عبدالملک نے اپنے بیٹے عبداللہ اور اپنے بھائی محمد بن مروان کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ کیا‘ اور اہل عراق کی طرف ان دونوں کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ: ’’ہم حجاج کو معزول کئے دیتے ہیں‘ اہل عراق کے وظائف مثل اہل شام کے مقرر کر دیں گے‘ عبدالرحمان بن محمد جس صوبہ کی حکومت پسند کرے اس کو دے دی جائے گی‘‘۔ حجاج کو اس پیغام کا حال معلوم ہو کر سخت صدمہ ہوا‘ اس نے عبداللہ بن محمد کو اس پیغام کے پہنچانے سے روک کر عبدالملک کو خط لکھا کہ اس طرز عمل سے اہل عراق کبھی آپ کے مغلوب و محکوم نہ ہوں گے اور ان کی سرکشی ترقی کرے گی‘ لیکن عبدالملک نے حجاج کی بات کو ناپسند کیا‘ اور عبداللہ بن محمد نے اہل عراق تک عبدالملک کا پیغام پہنچا دیا۔ اہل عراق کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور عبدالرحمان بن محمد اس کے تسلیم کرنے پر آمادہ تھا‘ لیکن لشکریوں نے اس بات کو نہیں مانا‘ اور سب نے مخالفت میں آواز بلند کر کے عبدالملک کے خلع خلافت کے لیے تجدید بیعت کی‘ عبداللہ و محمدیہ صورت دیکھ کر اپنی فوج حجاج کے پاس چھوڑ کر خود عبدالملک کے پاس واپس چلے گئے‘ اب طرفین میں تازہ جوش اور تازہ تیاریوں کا ساتھ پھر بڑے زور کی لڑائی شروع ہوئی‘ اور ایک سال تک برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ طرفین ہر روز اپنے اپنے مورچوں سے نکل کر نبرد آزما ہوتے اور شام کو اپنے مورچوں میں واپس چلے جاتے‘ ان لڑائیوں میں عبدالرحمان بن محمد کا پلہ بھاری نظر آتا تھا‘ اور حجاج کا نقصان زیادہ ہوتا تھا‘ لیکن