تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کہا کہ اے اہل کوفہ و بصرہ تم لوگ اب اس وقت تک یہاں مقیم رہو گے‘ جب تک کہ خوارج کا بالکل استیصال نہ ہو جائے‘ اس جگہ حجاج نے خود اپنے لیے ایک نیا فتنہ برپا کر لیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کے زمانہ میں لشکریوں کے وظائف میں سو سو درہم کا اضافہ کیا گیا تھا‘ یہ اضافہ آج تک برابر چلا آتاتھا اور کسی نے اس کے کم کرنے کی طرف توجہ نہیں کی تھی‘ حجاج نے اس مقام پر حکم دیا کہ ہر ایک لشکری کو وظیفہ وہی دیا جائے گا‘ جو مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما سے پہلے مقرر تھا‘ یعنی سو سو درہم ہر شخص کی تنخواہ سے کم کئے جاتے ہیں‘ عبداللہ بن جارود نے اس حکم کو سن کر کہا کہ ہمارے یہ وظیفے عبدالملک اور اس کے بھائی بشیر بن مروان نے بھی جائز رکھے ہیں‘ تم اس کو کم کرنے کی غلطی کا ارتکاب نہ کرو۔ حجاج نے عبداللہ بن جارود کی بات پر کچھ التفات نہ کیا‘ عبداللہ بن جارود نے پھر باصرار حجاج کے اس حکم کی مخالفت میں آواز بلند کی‘ مصقلہ بن کرب عبدی نے عبداللہ بن جارود سے کہا‘ کہ امیر نے جو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرنا ہمارا فرض ہے‘ مخالفت کرنا ہمارے لیے شایاں نہیں‘ عبداللہ بن جارود مصقلہ کو گالیاں دیتا ہوا حجاج کے دربار سے اٹھ آیا‘ اورحکیم بن مجاشعی کے پاس جا کر تمام کیفیت بیان کی‘ وہ بھی ہمنوا ہو گیا‘ پھر یکے بعد دیگرے اکثر لشکری عبداللہ بن جارود کے موید ہو گئے‘ اور سب نے مل کر عبداللہ بن جارود کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی کہ ہم حجاج کو گورنری سے معزول کر کے عراق سے نکال دیں گے‘ چنانچہ سب نے عبداللہ بن جارود کی افسری میں حجاج کے خیمے کا محاصرہ کر لیا۔ حجاج کے ساتھ بہت ہی تھوڑے آدمی تھے‘ مقابلہ ہوا‘ قریب تھا کہ حجاج مقتول یا گرفتار ہو جائے‘ لیکن شام ہو جانے کی وجہ سے اس کام کو کل پر ملتوی رکھ کر سب اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے‘ ان کا اصل مقصد حجاج کو قتل کرنا نہ تھا‘ بلکہ وہ اس کو عراق سے نکال دینا چاہتے تھے۔ رات کو حجاج کے دوستوں نے اس کو مشورہ دیا کہ تم یہاں سے بھاگ کر عبدالملک کے پاس چلے جائو‘ حجاج اس شش و پنج میں تھا‘ کہ اسی رات مخالفین کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور عباد بن حصین حبطی ابن جارود سے ناراض ہو کر حجاج کے پاس چلا آیا‘ اس کی دیکھا دیکھی قتیبہ بن مسلم بھی اپنی جماعت کو لے کر حجاج کے پاس آگیا‘ پھر سبرہ بن علی کلابی‘ سعید بن اسلم کلابی‘ جعفر بن عبدالرحمن بن مخنف ازدی بھی آگئے‘ غرض صبح ہوتے ہوتے حجاج کے پاس چھ ہزار کی جمعیت فراہم ہو گئی‘ صبح کو دونوں گروہوں میں خوب جم کر مقابلہ ہوا۔ حجاج اور اس کے ساتھیوں کے پائوں اکھڑ گئے تھے‘ اور عبداللہ بن جارود کو فتح حاصل ہو چکی تھی‘ کہ ایک تیر عبداللہ بن جارود کے گلے میں آکر لگا اور اس کا کام تمام کر گیا‘ عبداللہ بن جارود کے مرتے ہی حجاج کی شکست فتح میں تبدیل ہو گئی‘ ابن جارود کے ہمراہی بہت سے مقتول ہوئے‘ بہت سے امان طلب کر کے پھر حجاج کے لشکر میں آکر شریک ہو گئے۔ حجاج نے عبداللہ بن جارود اور اس کے ہمراہی سرداروں کے اٹھارہ سر کاٹ کر مہلب کے پاس بھجوائے‘ مہلب نے ان کو نیزوں پر نسب کرا دیا‘ تاکہ خوارج مرعوب ہوں‘ ادھر ابن جارود کے ساتھ حجاج کی معرکہ آرائی ہو رہی تھی‘ ادھر بصرہ کی طرف سے خبر آئی