تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رمضان و شوال کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ بھی آگیا اور اہل مکہ کی مصیبت اور محاصرہ کی شدت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما روزانہ مقابلہ پر جاتے اور محاصرین کو پسپا کرنے کی کوششیں عمل میں لاتے‘ لیکن روزانہ ان کے ساتھیوں کی تعداد کم ہو رہی تھی‘ اس لیے ان کی تدابیر کوئی ایسا نتیجہ پیدا نہ کر سکیں‘ جس سے کامیابی کی امید ہوتی۔ اہل مکہ ایک طرف مکہ سے باہر نکلے چلے جا رہے تھے‘ دوسری طرف سامان خورد و نوش کی نایابی و گرانی نے محصورین کے حوصلوں کو پست کر رکھا تھا‘ ماہ ذیقعدہ ۷۲ھ میں طارق نے مدینہ منورہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے عامل طلحہ النداء کو نکال دیا‘ اور ایک شامی کو مدینہ کاحاکم مقرر کر کے خود مکہ معظمہ کی طرف پانچ ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا‘ اس زبردست امداد کے پہنچنے پر حجاج کی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی ‘ اور اہل مکہ کی رہی سہی امیدیں بھی منقطع ہو گئیں‘ اسی حالت میں ماہ ذی الحجہ شروع ہو گیا‘ اور دور دور سے لوگ حج کے لیے آنا شروع ہوئے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے حجاج کو حج کرنے کی اجازت دے دی تھی مگر اس نے نہ طواف کیا‘ نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے میدان عرفات میں جانا چاہا تو حجاج نے روک دیا چنانچہ انہوں نے مکہ ہی میں قربانی کی‘ میدان عرفات میں کوئی امام نہ تھا‘ غرض اس سال لوگ ارکان حج ادا نہ کر سکے‘ ایام حج میں بھی حجاج نے سنگ باری کو بند نہ کیا‘ اس لیے خانہ کعبہ کا طواف بھی خطرے سے خالی نہ تھا‘ حاجیوں کی آمد سے مکہ میں قحط اور بھی زیادہ بڑھ گیا‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بھی اس سال حج کے لیے تشریف لائے تھے‘ انہوں نے یہ حالت دیکھ کر حجاج کے پاس پیغام بھیجا ’’کہ بندہ اللہ تعالیٰ اتنا تو خیال کر‘ کہ دور دور سے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے ہیں ان کو طواف کرنے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا تو موقع مل جائے‘ اس سنگ باری کو حج کے ختم ہونے تک بند کرا دے‘‘۔ اس پیغام کا یہ اثر ہوا‘ کہ حجاج نے سنگ باری بند کرا دی‘ مگر خود طواف نہیں کیا‘ اور نہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو میدان عرفات میں جانے دیا‘ ایام حج کے گذرتے ہی حجاج کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ باہر سے آئے ہوئے تمام اشخاص فوراً اپنے اپنے شہروں کو روانہ ہو جائیں‘ کیوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما پر سنگ باری شروع ہونے والی ہے‘ اس آواز کو سنتے ہی لوگوں کے قافلے روانہ ہو گئے‘ اور ساتھ ہی بچے ہوئے مکہ والوں میں سے بھی بہت سے لوگ اپنی اپنی جان بچا کر نکل گئے۔ حجاج نے پھر سنگ باری شروع کر دی ایک بڑا پتھر خانہ کعبہ کی چھت پر آکر گرا اور چھت ٹوٹ کر گری‘ اس پتھر کے آتے ہی آسمان سے ایک سخت کڑک کی آواز آئی‘ بجلی چمکی اور زمین و آسمان پر تاریکی چھا گئی‘ حجاج کی فوج کے لوگ ڈر گئے اور پتھر پھینکنے بند کر دیئے‘ حجاج نے لوگوں کو تسلی و تشفی دی اور کہا کہ یہ بجلی اور یہ کڑک میری امداد کے لیے آئی ہے اور یہ میری فتح کا نشان ہے‘ تم لوگ مطلق خوف و ہراس کو اپنے دلوں میں راہ نہ دو۔ دو روز تک تاریکی چھائی رہی اور کڑک کی آواز کے خوف سے کئی آدمی حجاج کی فوج کے مر گئے‘ حجاج کی فوج میں بڑی تشویش پھیلی ہوئی تھی‘ اتفاقاً اگلے روز پھر