تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے ہر طرح مطیع ہیں‘ بصرے پہنچ کر کچھ تدارک کیا جا سکے گا‘ یا پھر مکہ کی طرف چلیے۔ مصعب نے کہا صاحب زادے یہ ممکن نہیں ہے‘ کیوں کہ تمام قریش میں میرے میدان سے بھاگنے کا چرچا ہو جائے گا‘ بہتر یہ ہے کہ تم ہر ایک خیال کو چھوڑ دو‘ اور دشمن پرحملہ کرو‘عیسیٰ یہ سنتے ہی اپنے چند ہمراہیوں سمیت دشمن پر حملہ آور ہوا‘ اور سینکڑوں کو خاک و خون میں لٹا کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کی آنکھوں کے سامنے خود بھی ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اس کے بعد عبدالملک آگے بڑھ کر آیا‘ اور مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما سے بڑی منت اور اصرار کے ساتھ کہا‘ کہ آپ اب میدان سے واپس چلے جائیں‘ یا امان قبول کر لیں‘ یہاں تک کہ اس نے اس اصرار میں الحاح و عاجزی سے کام لیا‘ مگر مصعب نے اس کی طرف مطلق التفات نہ کیا‘ یہ وقت بھی عجیب و غریب وقت ہو گا کہ عبدالملک اپنی خفیہ تدابیر کے نتائج دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہو گا‘ کوفیوں کا لشکر میدان میں موجود ہے‘ مگر اپنے امیر کا ساتھ نہیں دیتا اور دور سے تماشا دیکھ رہا ہے‘ دوسری طرف مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما حیران ہوں گے‘ کہ جو لشکر میرے اشاروں پر کام کرتا اور گردنیں کٹواتاتھا‘ وہ میری مدد نہیں کرتا‘ کوفیوں نے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما اور امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں کے قتل کرانے میں ایک ہی درجہ کا جرم کیا‘ لیکن یہ دونوں جرم دو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے‘ وہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دشمنوں سے چاہتے تھے‘ کہ وہ ان کو میدان جنگ سے مکہ یا دمشق یا کسی او طرف کو بچ کر جانے دیں‘ یہاں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کے دشمنوں نے ان کی بات قبول نہیں کی اور یہاں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اپنے دشمنوں کی بات نہیں مانی نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوا۔ سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما اپنے بیٹے عیسیٰ کے مارے جانے کے بعد اپنے خیمہ میں گئے سر میں تیل ڈالا‘ خوشبو‘ لگائی‘ اور باہر آکر شمشیر بدست دشمن پر حملہ آور ہوئے‘ اس حملہ میں آپ کا ساتھ دینے والے صرف سات آدمی باقی تھے‘ جو ان کے ساتھ ہی مارے گئے‘ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے ایسا سخت حملہ کیا‘ کہ شامیوں کی صفوں کو درہم برہم کر دیا‘ آخر تیروں تلواروں اورنیزوں کے زخموں سے چور چور ہو کر بے ہوش ہو گئے‘ ان کے گرتے ہی شامیوں نے ان کا سر کاٹ لیا اور ۷۱ھ میں دس برس بعد کربلا کا تماشا دار جاثلیق میں دہرایا گیا۔ عبدالملک نے اسی میدان میں تمام لشکر کوفہ سے اپنی خلافت کی بیعت لی اور وہاں سے روانہ ہو کر کوفہ کے قریب مقام نخیلہ میں چالیس دن ٹھہرا رہا‘ جب اہل کوفہ کی طرف سے بہر طور اطمینان حاصل ہو گیا‘ تو شہر میں داخل ہوا‘ جامع مسجد میں خطبہ دیا لوگوں سے حسن سلوک کا وعدہ کیا انعام و اکرام سے خوش کیا‘ فارس و خراسان و بصرہ واہواز کے عاملوں کو لکھا کہ رعایا سے ہمارے نام پر بیعت لے لو۔ مہلب بن ابی صفرہ کو بھی اس کی جگہ بدستور قائم رکھا‘ سب نے عبدالملک کی خلافت کا تسلیم کر لیا‘ بجز تسلیم کے اب ان کے لیے کوئی چارہ بھی نہ تھا‘ صرف عبداللہ بن حازم نے کہ وہ بھی ایک حصہ خراسان کے حاکم تھے‘ بیعت سے انکار کیا اور بحرین بن ورقاء صریمی کے ہاتھ سے چند ہی روز کے بعد مارے گئے۔ بصرہ کی گورنری عبدالملک نے خالد بن اسید کے سپرد کی اور اپنے بھائی بشیر بن