تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئی‘ عبدالملک نے پوری طاقت سے اول اسی حصہ فوج پر حملہ کیا‘ جو ابراہیم بن مالک کی ماتحتی میں تھی‘ کیوں کہ اس کو ابراہیم بن مالک کی طرف سے بہت خوف تھا‘ یہ حملہ عبدالملک کے بھائی محمد بن مروان نے کیا تھا‘ طرفین سے خوب خوب دادشجاعت دی گئی‘ آخر ابراہیم نے محمد بن مروان کو پیچھے دھکیل دیا‘ محمد بن مروان کو ہزیمت ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک نے عبیداللہ بن زید کو ایک تازہ دم فوج کے ساتھ محمد کی مدد پر بھیجا‘ اب جم کا مقابلہ ہونے لگا‘ اسی معرکہ میں مسلم بن عمرو باہلی (قتیبہ بن مسلم کا باپ) بھی کام آیا۔ ابراہیم پر دشمنوں کا ہجوم دیکھ کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے عتاب بن ورقاء کو ابراہیم کی مدد کے لیے بھیجا‘ عتاب بن ورقاء پہلے ہی درپردہ عبدالملک کی بیعت کر چکا تھا‘ وہ قرارداد کے موافق فوراً میدان سے فرار ہو گیا‘ ابراہیم دشمنوں کے نرغہ میں گھر کر بڑی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا‘ ابراہیم بن مالک کے مارے جاتے ہی عبدالملک اور اہل شام کا دل بڑھ گیا اور انکو اپنی فتح کا کامل یقین ہو گیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے دوسرے سرداروں اوراپنے ہمراہیوں سے آگے بڑھنے اور حملہ کرنے کے لیے کہا مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا‘ سب نے اس کان سنا اور اس کان اڑا دیا‘ معدودے چند آدمی تھے جو میدان میں لڑ رہے تھے‘ باقی تمام فوج کوفیوں کی کھڑی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔۱؎ کوفیوں کی یہ غداری درحقیقت اس غداری سے جو انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کی بہت بڑھی ہوئی تھی‘ کیوں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے میں ان کو ابن زیاد اور اس کے لشکر نے مجبور کر دیا تھا‘ اور خوف و ہراس ان پر غالب ہو گیا تھا۔ لیکن مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کا ساتھ نہ دینا سراسر ان کی شرارت و غداری اور محسن کشی تھی۔ عبدالملک یہ نہیں چاہتا تھا‘ کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما قتل کئے جائیں‘ اس لیے اس اپنے بھائی محمد بن مروان کو مصعب کے پاس بھیجا‘ اور کہلا بھجوایا‘ کہ آپ کی طرف سے اب لڑائی کی شکل بگڑ چکی ہے‘ آپ کو کسی طرح فتح نہیں ہو سکتی‘ میں آپ کو امان دیتا ہوں‘ آپ میری امان قبول کر لیں‘ مصعب نے اس کا انکاری جواب دیا‘ اور کہا کہ مجھ کو صرف اللہ تعالیٰ کی امان کافی ہے‘ اس کے بعد مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کے بیٹے عیسیٰ سے محمد بن مروان نے کہا کہ تم کو اورتمہارے باپ مصعب دونوں کو امیر المومنین عبدالملک نے امان دی ہے‘ عیسیٰ نے یہ سن کر باپ سے آکر کہا‘ مصعب نے کہا کہ ہاں یہ تو مجھ کو بھی یقین ہے کہ اہل شام تمہارے ساتھ وعدہ پورا کریں گے اگر تمہارا جی چاہے تو تم ان کی امان میں چلے جائو۔ عیسیٰ نے کہا کہ میں قریش کی عورتوں کو یہ کہنے کا موقع ہر گز نہ دوں گا کہ عیسیٰ اپنی جان بچانے کے لیے باپ سے جدا ہو گیا‘ مصعب نے کہا‘ اچھا تم اپنے چچا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس مکہ کی جانب روانہ ہو جائو‘ اور ان کو اہل عراق کی غداری کا حال سنائو‘ مجھ کو یہیں چھوڑ جائو‘ میں نے اپنے آپ کو مقتول سمجھ لیا ہے‘ عیسیٰ نے کہا میں یہ خبر جا کر نہ سنائوں گا‘ مناسب یہ ہے کہ آپ اس میدان جنگ ۱؎ کوفی تو پہلے ہی کوفی لا یوفی مشہور اور بدنام تھے۔ اس واقعہ نے ان کے اس کردار کو مزید واضح کر دیا۔ سے واپس چلیں اور سیدھے بصرہ پہنچیں‘ وہاں کے لوگ آپ سے بہت خوش ہیں اور آپ