۸۲
مطلق سر کے کچھ حصہ کے مونڈنے اور کچھ حصہ چھوڑ دینے کا ذکر آتا ہے (۱) اس سے انسان کی صورت جیسی کچھ مضحکہ خیز اور وحشت انگیز بن جاتی ہو گی وہ محتاجِ اظہار نہیں۔ اس کا کچھ اندازہ ان ہندو بھائیوں کی ہیئت سے لگایا جا سکتا ہے جو شمالی ہند میں پورا مونڈ کر سر کے وسط میں چند بال چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل اسلام کی اس رسم کو منع فرمایا، اسی لیے امام نودی نے قزع کے مکروہ ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے بشرطیکہ علاج و بیماری کے لئے نہ ہو، ہاں البتہ یہ کراہت تنزیہی ہے (۲)
یہ بات تو ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مقدار میں بال رکھا ہے اس مقدار میں بال رکھنا مسنون اور سب سے بہتر ہے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کسی کی سنت قابل اعتناء ہے اور نہ کوئی رائے قابلِ توجہ ، رہ گیا یہ کہ مطلق بال رکھنا بہتر ہے یا بال کا مونڈانا۔ فقہاء احناف کا رحجان اس طرف ہے کہ اگر زلف نہ رکھ رہا ہو تو حلق و بال کا مونڈانا بہتر ہے، امام طحاوی نے اس کو سنت قرار دیا ہے اور اس کی نسبت امام ابو حنیفہ اور آپ کے دونوں ممتاز شاگرد قاضی ابو یوسف اور امام محمد کی طرف کی ہے بلکہ فقہاء احناف کی کتابوں میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ ہر جمعہ کو بال مونڈانا مستحب ہے۔ (۳)
جب کہ امام احمد کے نزدیک بال کو استرے سے مونڈانا مکروہ ہے۔ خود امام احمد کا معمول یہ تھا کہ بال ترشوایا کرتے تھے اور متوسط انداز کا بال رکھتے تھے۔ امام احمد کا نقطہ نظریہ ہے کہ قینچی سے بال تراشنا خواہ جڑ تک تراشا
----------------------------------------------------------
(۱) ابو داؤد عن بن عمر باب فی الصبی لہ ذوابۃ ۲/۵۷۷۔
(۲) عمدۃ القاری ۲۲/۵۸۔
(۳) عالمگیری ۵/۳۵۷ الباب التاسع عشر فی الختان الخ۔