استہزاء کرتاہو، شریعت کے بعض مسلمہ حقائق کامنکر ہو اور اپنے قول یا عمل کے ذریعہ کفر کی سرحد میں داخل ہوچکاہو مگر مسلمان ہوں کہ مصر ہوں کہ ہم ان لوگوں کو بہرحال کافر ہونے نہ دیں گے۔ اس لئے کہ اسلام مخصوص قسم کے نام اور آبائی اور خاندانی روایات کا نام نہیں بلکہ کچھ حقیقتوں سے عبارت ہے، جن پر یقین کرنا ایمان کیلئے شرط اولیں ہے۔
اسی طرح یہ افراط بھی صحیح نہيں کہ انسان ہروقت کفر کی شمشیر برہنہ اپنے ہاتھ میں لئے رہے اور ہر چھوٹے بڑے اختلافات پر مخالف کو کافر قرار دینے سے کم پر راضی نہ ہو، پھر قرآن پاک نے اس بات کو منع کیاہے کہ تحقیق و تفتیش کے بغیر کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ کردیا جاۓ اس کی اس درجہ تاکید کی گئی کہ عین میدان جنگ میں دشمن زیر ہوتے ہوتے دعوئ ایمان کرے تو گو شبہ اس کے جھوٹے ہونے پر موجود ہے لیکن اب بھی تحقیق کے بغیر قدم نہ اٹھایاجاۓ (ناء۔۔ 94) اسی لئے فقہاء نے اس پر مستقل بحث کی ہے کہ کون سے الفاظ و افعال کفر کا باعث ہوں گے اور انسان ان کی وجہ سے دائرۂ ایمان سے نکل جاۓ گا۔
اس لئے کفر کے سلسلہ میں کچھ ضروری اصول درج کئے جاتے ہیں .
1 ۔ کوئی بھی ایسا عمل جس کے ذریعہ دین کا استہزاء یا استخفاف ہوتاہو، کفر کا باعث ہے۔ مثلا کوئی شخص یہ کہتاہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا، اللہ نے قرآن میں یہ بات کیوں لکھ دی ؟ تو یہ باعث کفر ہے (1) اسی طرح قرآن مجید کے بے محل اور مزاحا استعمال سے خوب بچنا چاہۓ کہ مبادا قرآن کے ساتھ استہزا نہ ہوجاۓ اور ایسی
_________________________________________
(1) شرح فقہ اکبر ص : 249 نیز دیکھۓ رد المحتار 284/3