سے منع کیا بلکہ اس کو اپنے مُردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا (حجرات:۲)۔ حدیثوں میں نہ صرف غیبت کرنے بلکہ غیبت سُننے کی بھی ممانعت کی گئی۔ (۱)۔ کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کی کوئی ایسی بات بیان کرنی کہ اگر وہ اس کو سنے تو ناگواری ہو، غیبت ہے، چاہے اس بات کا تعلق جسمانی نقص، خاندان و اخلاق سے ہو، قول و فعل سے ہو یا دین و دنیا سے۔ (۲)۔
جیسا کہ عرض کیا گیا غیبت حرام ہے۔ لیکن جب شر سے حفاظت یا ظلم کا دفاع مقصود ہو تو جائز ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے چھ صورتیں لکھی ہیں جن میں غیبت کی اجازت ہے :
اول : ظلم کے خلاف دادرسی یعنی مظلوم اپنے فریق کی خیانت، رشوت ستانی یا کسی اور ظلم کی شکایت قاضی، سُلطان یا ذمہ دار کو کر سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صاحبِ حق کو بات کہنے کا حق حاصل ہے "ان لصاحب الحق مقالاً۔
دوسرے : کسی کی اصلاح اور منکر کو روکنے کی غرض سے زیادہ مؤثر شخص کی مدد حاصل کرنے کےلئے بھی غیبت کی جا سکتی ہے، وصالِ نبوی کے بعد ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان کو سلام کیا لیکن جواب سے محروم رہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ سے اس کی شکایت کی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان سے رجوع کیا۔ یہ شکایت اصلاح کے لیے تھی نہ کہ اہانت کے لئے۔
تیسرے : مفتی سے سوال کرنے والا اگر استفتاء میں کسی کے ظلم
-------------------------------------------------------
(۱) دلیل لفالحین ۳۶۳/۴، باب تحریم سِماع الغیبۃ الخ۔
(۲)۔ احیاء العلوم ۱۴۳/۳۔