اس میں شبہ نہیں کہ فقہ کی کتابوں میں بعض ایسے حیلوں کا ذکر آگیا ہے جو شریعت کے مزاج ومذاق سے میل نہیں کھاتا لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ فقہاء اس طرح کے حیلوں کو جائز قرار دیتے ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں ۔ مقصود محض یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کر ہی گزرے تو کیا حکم ہوگا ؟ اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس کی طرف علامہ ابن نجیم مصری نے بعض لوگوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اشارہ کیا کہ :
انما المعنی انہ لو فعل کذا لکان حکمہ کذا
امام سرخسی ؒ نے حیلہ کی جائز اور ناجائز صورت پر گفتگو کرتے ہوئے خلاصہ بحث یوں لکھا ہے :
’’ حاصل یہ ہے کہ وہ حیل جن کے ذریعہ انسان حرام سے خلاصی ، یا حلال تک رسائی کا خواہاں ہو بہتر ہے ، ہاں کسی کے حق کا ابطال ، یا باطل کی ملمع سازی مقصود ہو تو ناپسندیدہ ہے ۔ غرض حیلہ کی یہ راہ نا درست اور پہلے ذکر کی گئی صورت جائز ہے۔ ‘‘ (۲)
فقہاء نے جس طرح کے حیلے ذکر کئے ہیں ان کے مجموعی مطالعہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، مثلا کوئی عورت کسی مرد سے نکاح کی مدعی ہو اور وہ انکار کرتا ہو ، ثبوت فراہم نہ ہو تو اب یہ وقت ہے کہ چوں کہ مرد اس سے نکاح کا منکر ہے اس لئے اس سے طلاق دلوائی نہیں جاسکتی اور عورت نکاح کی مقر ہے ، اس لیے دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔ ایسی صورت میں یہ حیلہ بتایا گیا ہے کہ مرد سے کہلایا جائے کہ اگر میں نے اس سے نکاح کیا ہے تو اس پر طلاق واقع ہو تاکہ عورت کے لئے دوسرے نکاح کا راستہ نکل آئے ۔ (۳)
(۱) الاشباہ والنظائر لابن نجیم ص ۴۔۶
(۲) المبسوط ۳۰؍ ۲۱۰ (۳) الاشباہ والنظائر لابن نجیم ص ۴۰۷