۴۶۶
تھے، کھانے کے دوران مختلف جگہوں سے کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی اور فرمایا، بسم اللہ کہو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کے اس حصّہ سے کھاؤ جو تم سے قریب ہے۔ (۱)
کبھی شفقت اور دلجوئی کا لب و لہجہ اختیار فرمایا، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشروب لایا گیا۔ آپ کی دائیں جانب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے جو اس وقت بہت کم عمر تھے اور بائیں سمت بڑی عمر کے اصحاب تھے۔ آپ نے حضرت اب عباس سے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ یہ بچا ہوا ان بڑوں کو دے دوں؟ انہوں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو ملنے والا ہے خدا کی قسم میں اس میں ایثار نہیں کر سکتا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹا پینے کا شرف خود میں حاصل کروں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشروب ان کے ہاتھوں میں رکھ دیا (۲)۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو باتوں ہی باتوں میں بڑوں کا حق اور اُن کے ساتھ رعایت کی تعلیم بھی دے دی۔
مُربّی اور معلم کبھی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اشارہ اور عمل کے ذریعہ کسی بات پر تنبیہ کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ثابت ہے۔ ایک بار حجۃ الوداع کے دوران قبیلۂ بنو خثعم کی ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آئیں۔ حضرت فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور کم عمر ہی تھے۔ وہ ان کی طرف دیکھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے ان کا چہرہ دوسری سمت موڑ دیا (۳)، یہ گویا عملی طور پر
-----------------------------------------
(۱) بخاری، عن عمرو بن سلمہ، باب الاکل ممایلیہ۔
(۲) بخاری عن سہل بن سعد۔
(۳) بخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنہ۔