ہوتی ہو، مثلاً کسی کا نام "یسار" جس کے معنی آسانی کے ہیں، اب اس کے بارے میں کہا جائے کہ "یسار نہیں ہے" تو اس کے ظاہری معنی ہوں گے آسانی نہیں ہے۔ ایسے چار ناموں کا حدیث میں ذکر آیا ہے۔ یسار (آسانی)، رباح (نفع) بخیح (کامیاب) اور افلح (کامیاب) (۱)۔
ایسے نام بھی نہیں رکھنے چاہییں جس سے شرک کا اظہار ہوتا ہے، جیسے عبد النبی (نبی کا بندہ) یا ایسے نام جس میں غیر مسلموں سے تشبہ پیدا ہو اور ناموں میں مسلمانوں کا تشخص باقی نہ رہے جیسے جمشید، آفتاب، ماہتاب، نسریں، یاسمین وغیرہ۔
اس کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ناموں کو پسند فرمایا ہے جس سے اللہ کی عبدیت کا اظہار ہوتا ہو جیسے عبد اللہ، عبد الرحمٰن، وغیرہ۔ اسی طرح انبیاء کرام علیہم کے نام ابراہیم و اسماعیل وغیرہ۔ (۲)۔
اسی طرح صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اور سلف کے ناموں پر اپنے نام رکھنے چاہییں اور ایسے ناموں کا انتخاب کرنا چاہیے کہ اول لمحہ سمجھ لیا جائے کہ یہ شخص مسلمان ہے، نام بامعنی ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ نام کا اثر انسان کی ذات اور اس کے اوصاف پر بھی پڑتا ہے۔
ناموں کی ایک قسم "کنیت" ہے۔ کنیت وہ نام ہے جس میں اَب یا ابن کی طرف نسبت ہو۔ جیسے ابو ہریرہ (بلی والے)، ابو سفیان بمعنی سفیان کے باپ اور علی بن ابی طالب، ابو طالب کے بیٹے علی، سلف صالحین میں اس قسم کے ناموں کا کثرت سے رواج تھا جیسے ابوبکر، ابو الحسن، اُم سلمۂ،
--------------------------------------------------------
(۱) بخاری عن جابر باب احب الاسماء الی اللہ۔
(۲) ابو داؤد عن سمرۃ بن جندب باب فی تغیر الاسم القبیح۔