آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن سفر کے آغاز کو بہتر سمجھتے تھے اور زیادہ تر سفر اسی دن فرماتے ، رخصت ہونے والے کے ساتھ مشایعت یعنی تھوڑی دور چلنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے (۱) ۔ آدابِ سفر میں یہ بھی ہے کہ جس سواری میں جا رہا ہو اس پر مناسب حال بوجھ اٹھائے ، جانور پر سواری کرے تو اس کی راحت کا بھی خیال کرے (۲) ۔
سفر میں پانچ چیزوں کا رکھنا خاص معمول تھا ، آئینہ ، سُرمہ دانی ، قینچی ، مسواک اور کنگھی ۔ سفر سے واپس ہوتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھے کہ اچانک رات میں گھر نہ آئے بلکہ صبح یا شام کو آئے اور اہل خانہ کو پہلے سے باخبر کر دے (۳) ۔ واپسی میں جب شہر میں داخل ہو تو یہ دُعا پڑھے :
آئبون تائبون ان شاء اللہ عابدون لربنا حامدون (۴) ۔
لوٹ رہے ہیں ، تائب ہیں ان شاء اللہ ہم اپنے پروردگار کی حمد و تعریف کریں گے ۔
معمولِ مبارک تھا کہ تشریف آوری کے بعد پہلے مسجد جاتے ، دو رکعت نماز پڑھتے پھر مکان تشریف لے جاتے (۵) ۔ یہ بھی مسنون ہے کہ اعزء و اقرباء کے لئے کھانے وغیرہ کے کچھ تحفے ساتھ لاتے (۶) ۔ سفر سے واپسی پر آنیوالوں کے خیر مقدم اور استقبال کے لئے آگے بڑھ کر ملاقات کرنا بھی ثابت ہے (۷) ۔ صحابہ کا معمول تھا کہ طویل سفر سے واپس آتے تو باہم معانقہ بھی کرتے (۸)۔
-----------------------------------------------------
(۱) احیاء العلوم ۲۵۴/۲۔
(۲) حوالہ سابق ص ۲۵۵۔
(۳) ابو داؤد باب فی الطروق۔
(۴) زاد المعاد ۳۶/۲۔
(۵) حوالۂ سابق ص : ۳۸۔
(۶) احیاء العلوم ۲۵۷/۲۔
(۷) دیکھئے ابوداؤد باب فی القلق ۔
(۸) زاد المعاد ۲/۸۳۔