ملا علی قاری نے اس کی وجہ یہی لکھی ہے کہ اس بیٹھک سے کبر کا اظہار ہوتا ہے ، نشست و برخاست میں سب سے اہم بات اچھے ہمنشیں کا انتخاب ہے ۔ آپ نے ایک روایت میں اچھے اور بُرے ہمنشیں کے فائدے اور نقصان کو بڑی عمدہ تمثیل سے واضح فرمایا ہے کہ اچھے ہمنشیں عطر فروش کی طرح ہیں ۔ اگر عطر نہ ملے تو خوشبو ضرور ملے گی ۔ بُرا ہمنشیں اس شخص کی طرح ہے جس کی بھٹی ہو ، آگ سے بچ بھی جائے تو دھنواں سے نہیں بچ سکتا (۱)۔ کوئی بھی مجلس ہو ، ہونا یہ چاہے کہ وہ اللہ کے ذکر سے بالکل خالی نہ ہو ۔ ایسی مجلس جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُردار گدھے کی طرح ہے اور یہ مجلس اہل مجلس کے لئے باعث حسرت و افسوس ہو گی (۲)۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے حضور کا معمول نقل کیا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھتے تو ایک خاص دعا فرماتے اور وہ یہ ہے :
" اے اللہ ہمیں اپنے خوف کا ایسا حصہ عطا فرما جو ہمارے اور آپ کی نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے اور اپنی طاعت کا اتنا حصہ جو آپ کی جنت تک پہنچائے ۔ یقین کا اتنا حصہ عطا فرما کہ دنیا کی آزمائشیں ہم پر آسان ہو جائیں ۔ خدایا ! جب تک ہم زندہ رہیں ، ہمارے کان ، آنکھ اور قوت کو لائقِ استفادہ رکھ اور ہماری نسلوں میں اس کیفیت کو باقی رکھ ۔ اور ہم پر ظلم کرنے والوں سے تو ہی انتقام لے ، ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ، ہمارے دین کو آزمائش نہ بنا ، نہ دنیا کو ہمارے فکر کا سب سے بڑا مرکز اور علم کا مبلغ اور نہ ہم پر ایسے شخص کو مسلط فرما جو بے رحم ہو " (۳)۔
----------------------------------------------------
(۱) بخاری، باب فی العطار ۔
(۲) ابو داؤد عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ۔
(۳) ترمذی عن ابن عمر ۱۸۸/۲۔