مجلس میں پہنچے تو پہلے سلام کرے، واپس ہو تو اس وقت بھی سلام کرے۔ مجلس میں دوسرے کی جو نشست گاہ ہو یا تکیہ وغیرہ ہو وہاں پر نہ بیٹھے، اس کو حدیث میں تکرمہ سے تعبیر کیا گیا ہے (۱)۔ کسی عہدہ دار کی کرسی خصوصی نشست گاہ، گاؤ تکیہ وغیرہ کے یہی احکام ہیں۔ ان پر ازخود نہ بیٹھنا چاہیے کہ یہ خلافِ ادب ہے اور میزبان کے احترام اور تعظیم کے خلاف۔ بیٹھنے کے انداز میں بھی تواضع ہو کہ کبر کی بُو نہ آتی ہو۔ حضرت قیلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات تواضع کی ایسی کیفیت پر بیٹھا ہوا دیکھا کہ میں بےچین ہو گئی اور گھبرا گئی "ارعدت من الفرق" (۲)، تاہم چوں کہ مختلف لوگوں کے لئے اور مختلف حالات میں بیھٹنے کی الگ الگ ہئیتیں مناسب ہو سکتی ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص صورت اور ہیئت متعین نہیں فرمائی۔ بعض اوقات اکڑوں یعنی سرین کے بل پنڈلیاں اٹھا کر بیٹھتے (۳)، کبھی تکیہ پر ٹیک لے کر بیٹھتے (۴)، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک پلتھی مار کر بیٹھنے کا معمول تھا۔ (۵)۔
ہاں ایسی بیٹھک جو متکبرانہ ہو مناسب نہیں۔ ایک صاحب کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا، انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لگا رکھا تھا اور دائیں ہاتھ پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر غصہ کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی بیٹھک ہے جو عند اللہ مغضوب ہیں۔ (۶)۔
-----------------------------------------------------
(۱) ترمذی باب ماجاء فی الاتکاء۔
(۲) ابو داؤد، مشکوٰۃ باب الجلوس۔
(۳) بخاری عن ابن عمرو۔
(۴) ترمذی عن جابر بن سوداء، باب ماجاء فی الاتکاء۔
(۵) ابو داؤد عن جابر بن سمرہ۔
(۶) ابو داؤد عن شرید۔