کرے تو اس کے چہرہ پر خاک پھینکدو (۱)۔ مقصود مبالغہ آمیز تعریف کرنے والوں اور خوشامد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہے۔
گفتگو میں تکلف اور چبا چبا کر باتیں کرنا، اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے کو اللہ ما مبغوض بندہ قرار دیا ہے (۲)۔ کئی شخص باتیں کرنے والے ہوں تو جو بڑا ہو وہ گفتگو کا آغاز کرے (۳)۔
معمولِ مبارک یہ تھا کہ بہتر شیریں اور خوبصورت الفاظ کا استعمال فرماتے، دیہاتیوں کی طرح سخت اور غیر مہذب گفتگو نہ فرماتے۔ جو جس خطاب کا اہل ہوتا اس کے لئے ایسا ہی خطاب اختیار فرماتے (۴)۔ جو بات کہتے اس طرح کہتے کہ لوگ سمجھ لیں، اسی لئے بسا اوقات ایک بات کا تین بار تکلم فرماتے (۵)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا یہ انداز نقل کیا کہ لفظ لفظ الگ ہوتا اور سننے والا پوری طرح سمجھ لیتا (۶)۔ مگر گفتگو میں تسلسل ہوتا (۷)۔
آپ صلی اللہ عکہ وسلم کی گفتگو اور خطبات و مواعظ جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر اور پُر معنیٰ گفتگو فرماتے، طویل، لانبی اور اُکتا دینے والی گفتگو نہ ہوتی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے (۸)۔ زبان کی حفاظت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص
-----------------------------------------------------------------
(۱) مسلم عن مقداد بن اسود۔
(۲) ترمذی باب ماجاء فی الفصاحۃ والبیان۔
(۳) دیکھئے : بخاری باب اکرامالکبیر۔
(۴) زاد المعاد ۲/۱۱۔
(۵) ابو داؤد باب تکریر الحدیث۔
(۶) ابو داؤد باب الہدی فی الکلام۔
(۷) زاد المعاد ۱/۶۳ فصل فی ہدیہ فی کلامہ۔
(۸) ابع داؤد باب ماجاء فی المتشدق فی الکلام۔