4۔جوکام بکثرت فساد کا ذریعہ بنتا ہو لیکن اکثر نہیں یعنی جو دوسرے اور تیسرے درجہ کے درمیان ہوــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں دو اصل متعارض ہیں،ایک پہلو یہ ہے کہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ جائز ہو۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ بکثرت مفاسد کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کو ممنوع ہونا چاہئے تھا،احناف و شوافع نے پہلی اصل کو پیش نظر رکھا اور اس درجہ کے ذریعہ کو ممانعت کے لیے کافی نہیں مانا۔ مالکیہ نے دوسری اصل کو سامنے رکھا اور اس ذریعہ کو بھی ممنوع قراردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثلاً ایک مہینہ کی مہلت پر کوئی چیز دس درہم میں فروخت کی اور پھر اسی سامان کو مکمل ہونے سے پہلے پانچ درہم میں خرید کر لیا،پس بیچنے والے نے اپنا سامان جوں کا توں واپس لیا۔ پانچ درہم دیئے اور دس درہم حاصل کئے۔ اس طرح بالواسطہ ربا کا ذریعہ بن گیا۔۔۔۔۔۔امام ابو اسحاق شاطبی کا بیان ہے کہ اسی اصولی اختلاف کے پیش نظر احناف اور شوافع نے اس نام نہاد بیع کی اجازت دی اور مالکیہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ۔(1)
مالکیہ کا نقطہ نظر ہے کہ صورت واقعہ اصل نہیں ہے ۔اصل قابل توجہ بات اس سے پیدا ہونے والے نتائج اور صاحب معاملہ کے مقاصد ہیں ۔ دوسرے ایک طرف اذن شرعی ہے اور دوسری طرف ایک انسان کو دوسرے انسان کے ضرر سے بچانا ہے اور دوسری مصلحت اس مرتب ہونے والے مفاسد کے اعتبارسے زیادہ قوی ہے ۔ تیسرے صحیح روایات بہت سی ایسی باتوں کی حرمت پر شاہد ہیں جو اصلاً جائز ہیں،
---------------------------------------------------
(1) حقیقت یہ ہے کہ احناف بھی اس قسم کی بیع کو ناجائز ہی کہتے ہیں۔ دیکھئے ہدایہ 41/3 ۔