بڑوں کا بوسہ کے سلسلہ میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ غیر محرم مرد وعورت کے لئے تو ایک دوسرے کا بوسہ ناجائز ہے ہی ، ایک مرد کے لئے دوسرے مرد کا یا ایک عورت کے لئے دوسرے عورت کا بوسہ لینا عام حالات میں درست نہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک دوست اپنے دوست یا بھائی سے ملے تو کیا اس کے لئے جھکے ، آپﷺ نے فرمایا : نہیں ، پھر پوچھا گیا کہ کیا اس سے چمٹے اور بوسہ لے ؟ تو آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ، پھر ہاتھ پکڑنے اور مصافحہ کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس کی اجازت دی ۔ (۱)
اس لئے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک عام حالات میں اس کو مکروہ قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ علامہ کاسانی فرماتے ہیں : معانقہ اور بوسہ کے سلسلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے یہاں ایک شخص کے لئے دوسرے شخص کا چہرہ یا ہاتھ یا کسی حصۂ جسم کا بوسہ لینا مکروہ ہے اور امام ابو یوسف کے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں (۲)
البتہ جہاں شہوت کا کوئی اندیشہ نہ ہو وہاں گنجائش ہے ، چنانچہ ایک دفعہ باہر سے حضرت زید بن حارثہ کی مدینہ واپسی پر فرط مسرت میں آپ ﷺ نے ان سے معانقہ کیا اور بوسہ دیا ، اسی طرح وفد عبد القیس آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو شرکاء وفد نے آپ کے دست و پائے مبارک کا بوسہ لیا (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ترمذی عن انس ، باب ما جاء فی المعانقۃ والقبلۃ ۲ / ۱۰۲
(۲) بدائع الصنائع ۵ / ۱۲ کتاب الاستحسان
(۳) ابوداؤد ، باب قبلۃ الرجل ۲ / ۷۰۹