پڑھ لیتے ہیں تو مصافحہ کرنے لگتے ہیں، اسی لئے ہمارے بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ اس وقت مصافحہ مکروہ ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قبیح بدعتوں میں سے ہے، ہاں اگر کوئی مسجد میں آئے، لوگ مصروف نماز ہوں یا نماز شروع ہی کیا چاہتے ہوں تو پھر نماز سے فراغت کے بعد آنے والا شخص پہلے ان کو سلام کرے پھر مصافحہ ۔۔۔۔ تو یہ بلا شبہ مسنون مصافحہ ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود اگر کوئی مسلمان مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے تو ہاتھ کھینچنا نہ چاہیے کہ اس میں ایک مسلمان کو ایذاء پہونچانا ہے جو رعایت ادب سے بڑھ کر ہے ۔۔۔۔۔۔ حاصل یہ کہ اس وقت مروجہ طریقہ پر مصافحہ کی ابتداء تو مکروہ ہے مگر بدخلقی (مجابرہ) مناسب نہیں۔" (۱)
مصافحہ ایک ہاتھ سے ہو یا دو ہاتھ سے؟ یہ اتنی اہم بات نہیں جتنی اہمیت کہ لوگوں نے دے رکھی ہے۔ حدیث میں زیادہ تر "ید" ہاتھ کے الفاظ آئے ہیں جو عربی قاعدہ کے لحاظ سے واحد ہونے کی وجہ سے ایک ہاتھ کو بتاتا ہے مگر زبان کا ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ کبھی ہاتھ بول کر دونوں ہاتھ، پاؤں بول کر دونوں پاؤں اور آنکھ بول کر دونوں آنکھیں مُراد لی جاتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ میرا ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معمول مبارک دو ہاتھوں سے مصافحہ کا بھی تھا، اس لیے صحیح یہی ہے کہ دونوں طرح
---------------------------------------------------------------------
(۱) مرقاۃ ۴/۵۷۵، باب المصافحہ والمعانقہ۔