٤١٨
ضرور ہی مصافحہ فرمایا(١) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصافحہ کی ابتداء سب سے پہلے اہل یمن نے کی ہے(٢) صحابہ کا بھی معمول باہم مصافحہ کرنے کا تھا(٣) اور کیوں نہ ہوتا تھا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ دو مسلمان جب بھی باہم ملیں اور مصافحہ کریں تو الگ ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (٤) ایک روایت میں یوں بھی ارشاد فرمایا گیا کہ مصافحہ باہمی کینہ و کدورت کو دور کرتا ہے(٥)۔
مصافحہ کا وقت آغاز ملاقات ہے، اس طور کہ پہلے سلام کیا جائے پھر مصافحہ(٦) اس موقعہ پر ایک دوسرے کو مغفرت کی دعا دینے کی بھی تلقین فرمائی ہے(٧) "يغفر الله لنا ولكم"کہنا اسی فرمان کی تکمیل ہے۔
بعض نمازوں کے بعد جو خاص طور پر مصافحہ کا رواج ہوگیا ہے یہ بدعت اور مکروہ ہے، مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری حنفی نے اس پر بڑی بصیرت افروز گفتگو فرمائی ہے، لکھتے ہیں۔
فجر و عصر کے وقت لوگوں کے مصافحہ کا عمل مستحب و مشروع طریقے کے مطابق نہیں ہے، اسلئے کہ مصافحہ کا عمل آغاز ملاقات ہے، ان نمازوں میں لوگ بغیر مصافحہ کے باہم ملاقات کرتے ہیں، باہم گفتگو کرتے ہیں، علمی مذاکرہ کرتے ہیں، اور ان سب چیزوں میں خاصا وقت گزارتے ہیں، پھر جب نماز
______________________________________
(١) ابوداؤد عن ابی ذر باب فی المعانقہ.
(٢) ابو داؤد عن انس بن مالک، باب فی المعانقہ ٧٠٨/٢.
(٣) ترمذی عن انس بن مالک، باب ماجاء فی المصافحہ.
(٤) حوالہ سابق نیز ابو داؤد عن براء بن عازب، باب فی المصافحہ.
(٥) مشکوۃ عن عطاء مرسلا ٢/ باب فی المصافحہ و المعانقہ، الفصل الثالث.
(٦) مرقاۃ ٥٧٥/٤. (٧) ابوداؤد، باب فی المصافحہ.