دو حلال و حرام جانور کے اختلاط سے جو بچہ پیدا ہوا،اس کو احتیاطاًحرام ہی سمجھا جائے گا ۔شکار پر تیر پھنکا گیا اور وہ پہاڑ پر اور پھر اس سے زمین پر گرا تو احتما ل اس کا بھی ہے کہ موت تیر سے واقع ہوئی ہو ،ایسی صورت میں اسے حلال ہونا چاہئے ۔امکان یہ بھی ہے کہ پہاڑ سے گرنا موت کا باعث بنا ہو ،اگر ایسا ہو تو شکار حرام ہوگا ،فقہاء نے دونوں احتمالات میں حرمت کو پہلے ترجیح دیا اور ایسے شکار کو حرام زمرہ میں رکھا (1)چھری مسلمان کے ہاتھ میں ہو اور کوئی مشرک اسکا ہاتھ تھام کر جانور کے حلقوم پر چلائے تو ذبح میں اس مشرک کی شرکت کی وجہ سے احتیاطاًاسے حرام ہی قرار دیا جائے گا (2)اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن کی بنیاد اسی قاعدہ پر ہے۔
5۔ذرائع حرام کا سدباب
اگر کسی بات سے منع کرنا اور روکنا مقصود ہو تو فطری بات ہے کہ ان اسباب وذرائع کو بھی منع کرنا ہوگا جو اس ممنوع بات کا ذریعہ بنتے ہوں ۔اللہ تعالی کی شان میں گستاخی بری بات ہے ۔معبودان باطل کی مذمت کی جائے تو ضرور ہے کہ خدا ناشناس کفار خود خدائے برحق کی شان میں گستاخی کرینگے ۔اسی لئے قرآن پاک نے معبودان باطل کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا (3)زنا سے روکنا مقصود ہے ۔لیکن زنا کے سد باب کے لئے اجنبی عورت کی خلوت ،نیز بے پردگی کو بھی منع فرمایا۔اصل ممانعت شراب یا سود کی ہے۔
-------------------------------------------------------
(1)
(2)الاباہ والنظائز لابن نجیم 110 (3)الانعام۔108