یا نئے کرایہ دار سے پگڑی وصول کرنا.
3 . جس کرایہ دار نے پگڑی دیئے بغیر مکان حاصل کیا ہو اس کا مالک مکان یا نئے کرایہ دار سے پگڑی وصول کرنا.
1 - پہلی صورت جائز ہے، مالکِ مکان پگڑی لے کر گویا کرایہ ہی کا ایک حصہ بعجلت وصول کر لیتا ہے اور کرایہ کا بقیہ حصہ ماہوار بالاقساط حاصل کرتا ہے اور ایسا کرنا جائز ہے، علامہ شامی نے اپنے زمانہ میں "خدمت" اور "تصدیق" کے نام سے کرایہ دار سے یکمشت کچھ رقم وصول کرنے کا ذکر کیا ہے جس کی نوعیت قریب قریب پگڑی ہی کی ہے-(رد المختار 17/4)
2 - دوسری صورت بھی جائز ہے، دراصل حقِ ملکیت اور حقِ قبضہ دو مستقِل حقوق ہیں جو مکان سے متعلق ہیں، کرایہ دار پگڑی ادا کر کے حقِ قبضہ خرید کر لیتا ہے اور حقِ ملکیت اصل مالک کا باقی رہتا ہے، اب یہ کرایہ دراصل مالکِ مکان یا نئے کرایہ دار سے اسی حقِ قبضہ کی قیمت پگڑی کے نام پر وصول کر لیتا ہے- فقہاء کے یہاں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ جن میں بعض حقوق کو قابلِ قیمت تسلیم کیا گیا ہے.(دیکھیے ردالمختار 15/4 وحموی علی الشباہ "القاعدہ السادسة)
تیسری صورت جائز نہیں. جس کرایہ دار نے پگڑی کے بغیر مکان یا دکان حاصل کی ہے چونکہ وہ صرف حقِ انتفاع کا مالک ہے حقِ قبضہ کا مالک نہیں اس لیے وہ خود مالکِ مکان یا نئے کرایہ دار سے پگڑی حاصل کرنے کا مجاز نہیں، اگر پگڑی نئے کرایہ دار سے حاصل کرتا ہے تو غصب کے حکم میں ہے اور خود مالکِ مکان سے لے تو رشوت ہے۔ اگر اس نے مکان یا دکان میں کوئی تعمیری اضافہ کیا تب بھی وہ پگڑی لینے کا حقدار نہیں بلکہ صرف اس اضافہ کی مناسب قیمت وصول کر سکتا ہے، قانون ملکی گو اس کے حقِ اجارہ کو عام حالات ميں ناقابلِ انفساخ قرار دیتا ہے لیکن چونکہ یہ قانونِ شرعی کے مغایر ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں (تفصیل دیکھیے قاموس الفقہ دوم مادہ "بدلِ خلو".جدید فقہی مسائل دوم 305-281)