مصنوعات کے خریدنے کا رواج ہو، ان میں رواج و تعامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہاء نے "استصناع" کی اجازت دی ہے "ثم انما جاز الاستصناع فیما للناس فیہ تعامل اذا بین و صفاً علیٰ وجہ یحصل التعریف اما فیما لا تعامل فیہ۔۔۔۔۔۔لم یجز" (۱)۔ اسی طرح حاجت کی بنا پر "ضمانِ درک" (۲) وغیرہ کی گنجائش سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے جان و مال اور تجارت و صنعت وغیرہ کے سلسلہ میں جس ضرر شدید سے دوچار ہیں وہ مذکورہ حاجتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس لئے اجتماعی حاجت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان و مال اور تجارت و صنعت کا انشورنس جائز ہو گا۔
دوسرے امت کا اختلاف رحمت ہے اور جہاں دقت پیدا ہو جائے وہاں اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء کے مشورہ سے قول ضعیف پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ شامی نے لکھا ہے (۳)۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دار الحرب میں عقود فاسدہ کے ذریعہ حصولِ مال مسلمان کے لئے جائز ہے، یہ رائے گو دلائل کے اعتبار سے مرجوح ہے لیکن بے اصل نہیں ہے۔ ایسا ملک جو دار الحرب ہو لیکن اہلِ اسلام سے اس کی مصالحت ہو گئی ہو اور گویا اسکی حیثیت معاہدین کی ہو گئی ہو، امام محمد کی حسب تحریر ان سے بھی عقودِ فاسدہ جائز ہے۔
فلو ان اھل دار من دار الحرب و ادعو اہل الاسلام فدخل الیھم مسلم و بایعھم الدرھم بالدرھمین
اگر دار الحرب کے لوگ اہل اسلام سے صلح کر لیں پھر کوئی مسلمان ان کے ملک میں جائے اور دو (2) درہم کے بدلہ ایک درہم خرید کر لے تو اس میں کوئی
---------------------------------------------------
(۱) قاضی خاں ۴۹۹/۱۔
(۲) "ضمانِ درک" سے مراد یہ ہے خریدار بیچنے والے سے سامان لینے کے علاوہ مزید ضمانت حاصل کرے کہ اگر اس سامان کا کوئی حقدار نکل آئے تو وہ اس سامان کی قیمت وصول کرے گا۔
(۳) ردّالمختار۔