ہوتا ہے ، مقروض اپنا مکان قرض دینے والے کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ فروخت کردیتا ہے کہ وہ جب قرض ادا کرے گا تو اپنا مکان واپس لے لیگا اور پھر وہ بدستور اس کی ملک میں آجائے گا ۔
فقہاء کے یہاں اس کو بیع الوفاء ، رہن معاد ، بیع امانت اور بیع اطاعت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، شریعت کے اصول کے مطابق اگر کوئی ایسی شرط لگادی جائے جو تقاضائے خرید و فروخت کے خلاف ہو تو خرید و فروخت درست نہیں ہوتی ، یہاں چوں کہ اس معاملہ کے ساتھ یہ شرط لگادی گئی ہے کہ ایک مدت کے بعد وہ شیئ واپس کر دینی ہو گی اور یہ بیع کے اصول اور تقاضوں کے خلاف ہے ، اس لئے معاملہ درست نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ عملاً اس کی صورت بالکل رہن کی سی ہے اور فقہاء نے بھی ایک طرف اس کے غیر معمولی تعامل اور دوسری طرف فقہی قباحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو رہن کی حیثیت سے جائز رکھا ہے ۔ اب اس معاملہ کو رہن قرار دینے کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس خریدار کو جس کی حیثیت دراصل رہن رکھے گئے مال کے امین کی ہے اور جسے فقہ کی اصطلاح میں ’’ مرتھن ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے استفادہ کا کچھ حق نہیں ہو گا ۔
البیع الذی تعارفہ اھل زمننا احتیالا للربا و سموہ بیع الوفا وھو رھن فی الحقیقۃ لا یملکہ ولا ینتفع بہ إلا باذن مالکہ وھو ضامن لما اکل من ثمرۃ واتلف من شجرۃ (۱)
وہ بیع جو آج کل ہمارے زمانہ میں سود سے بچنے کے لئے حیلہ کیا جارہا ہے اور لوگ اس کو بیع وفاء کا نام دیتے ہیں ، درحقیقت ’’ رہن ‘‘ ہے ، نہ وہ اس کا مالک ہے اور نہ ہی مالک کی اجازت کے بغیر اس سے نفع اُٹھا سکتا ہے ، درخت کا جو پھل وہ کھائے یا درخت کو جو نقصان پہنچائے وہ اس کا ضامن ہو گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) رد المحتار ۵ / ۲۴۶