ہے نہ کسی اور طور اس کا عوض وصول کرنا جائز ہے ۔ شامی نے موصیٰ لہ کے حق خدمت اور شفیع کے حق شفعہ کے درمیان فرق کرتے ہوئے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے :
وحاصلہ ان ثبوت حق الشفعة للشفیع وحق القسم للزوجة وكذلك حق الخيار في النكاح للمخيرة إنما هو لدفع الضرر عن الشفيع والمرأة وما ثبت لذلك لا يصح الصلح عنه..... أما حق الموصى له بالخدمة فليس كذلك، بل ثبت له على وجه البر والصلة فيكون ثابتا له أصالة، فيصح الصلح عنه إذا نزل عنه لغيره. (1)
دوسری قسم کے حقوق وہ ہیں جو حکمِ شرعی یا ایسے عرف کی بنا پر (جو شریعت کے عمومی مصالح سے مطابقت رکھتے ہوں) اصالۃً کِسی شخص کے لئے ثابت ہوں یہ بھی دو طرح کے ہیں، بعضے وہ ہیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل کئے جا سکتے ہیں، دوسرے وہ جن کا ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف انتقال نہیں ہوسکتا، ان کی خرید وفروخت بھی نہیں ہو سکتی کہ خرید وفروخت کے لئے انتقالِ ملک ضروری ہے اور یہ حقوق قابل انتقال نہیں ہیں ہاں بطریق صلح وتنازل (دست برداری) اس کا عوض وصول کیا جا سکتا ہے ، ان حقوق کی فروخت کے جائز نہ ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے حق ولاء کے خرید وفروخت اور اس کے ہبہ سے منع فرمایا ہے۔ (۲) اور دست برداری اختیار کر کے عوض وصول کرنے کی دلیل قصاص و خلع ہے جس میں مقتول کا وارث حق قِصاص اور شوہر بیوی پر ’’ ملکیت نکاح ‘‘ سے باہم طے شدہ معاوضہ کے بدلہ دست کش ہو سکتا ہے۔ اور یہ شریعت کے مسلمات اور فقہاء کے متفقات میں سے ہے۔
_____________________
(1) رد المحتار (16/4)
(2) بخاری ، باب بیع الولاء وہبتہ
۲۴ حلال وحرام