مالک ہوجاتا ہےاور وہ اس میں ہر طرح کے تصرف کا مجاز ہے، اب اگر بیچنے والا ایسی کوئی شرط لگادے جس سے خریدار کے حق تصرف پر تحدید عائد ہوتی ہے تویہ نامناسب شرط سمجھی جاتی ہے اور معاملہ فاسد ہوجاتا ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خریدوفروخت کے ساتھ شرط لگانے سے منع فرمایا ہے، نھی عن النبی صلی اللہ علیہ السلام عن بیع وشرط (1)
لیکن اگر کوئی شرط عرف ورواج کا درجہ حاصل کرلے تو پھر معاملہ کے ساتھ ایسی شرط عائد کرنے میں کوئی قباحت نہیں، عالمگیری میں ہے ؛
۔۔۔اولم يرد الشرع بجوازه ولكنه متعارف كما اذا اشترى نعلا وشراكا علي ان يحذوه البائع جازالبىع استحسانا وان اشترى صرما على ان یخرزالبائع له خفا قلنسوة بشرط ان يبطن له البائع من عنده فالبيع بهذالشرط جائزللتعامل (2)
ایسی شرط کے شریعت میں اس کے جواز کے بارے میں وارد نہ ہوا لیکن وہ مروج ہو،مثلا چمڑہ یا تسمہ اس شرط پر خریدکرے کہ بیچنے والا اس کا جوتا بنادے تو استحانا یہ جائز ہوگا اور اگربایں شرط کہ فروخت کنندہ اس کے لیے اپنے پاس سے استر بنائے تو اس شرط کے ساتھ رواج وتعامل کی وجہ خریدوفروخت جائز ہوگی۔
فی زمانہ بہت سی چیزیں ہیں کہ ان کی خریدوفروخت کے ساتھ کمپنیاں ایک مخصوص مدت کے لیے گارنٹی قبول کرتی ہیں اوراس مدت میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوجائے تودرستگی کی ضامن ہوجاتی ہیں یا کسی شی کی خریداری پر مزید کوئی اور شے تجار دیاکرتے ہیں۔ یہ صورتیں جائز ہوں گی کیونکہ ان کا شمار اب معروف ومروج شرائط میں ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1)الطبرانی فی فی الاوسط عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبی ﷺ ( تخریج ہدایہ 2/43 درایۃ )
133/2 ۔