تجارت کے معاملہ میں بلکہ تمام ہی معاملات اور معاہدات میں شریعت کا عمومی مزاج یہ ہے کہ فریقین کی مکمل رضامندی کے بغیر معاملہ طے نہ ہو اور اس کو ایسی آزادی حاصل ہو جو دوسروں کے لئے نقصان اور ضرر کا باعث نہ ہو، اسی لئے ایسی تمام صورتیں جس میں صاحبِ معاملہ کی رضا مندی کے بغیر کوئی معاملہ اس پر تھوپا جائے، شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ اور ممنوع ہے۔ اسلام سے پہلے خرید و فروخت کی متعدد صوورتیں رائج تھیں، جن میں مکمل رضا مندی کے بغیر آدمی پر کوئی سودا لازم ہو جاتا تھا جس مو "ملا مسہ" اور "مناہذہ" کہا کرتے تھے۔ اسلام نے ایسی تمام صورتوں کو منع کر دیا اور قیمت کے معاملہ میں بھی اسلام کا عمومی مزاج یہی ہے کہ حکومت دخل نہیں دے اور طبعی رفتار اور افتاد کے مطابق قیمتوں میں کمی و بیشی ہو۔ ایک بار بعض لوگوں نے خصوصیت سے خواہش کی کہ قیمتیں متعین کر دی جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور فرمایا کہ قیمتوں میں گرانی اور ارزانی کرنے والا اللہ ہے (۱)۔
لیکن بعض دفعہ لوگ اخلاقی ہدایات کا اثر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اور ان کے لئے قانون کی تلوار استعمال کرنا ناگزیر ہو جاتاہے۔ ایسے ہی لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر فقہاء نے گراں فروشی کے بہت بڑھ جانے کی صورت میں تعیینِ قیمت کا حکومت کو حق دیا ہے کہ حکومت اصحابِ رائے کے مشورہ سے تاجروں کو متعینہ قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کر سکتی ہے (۲)۔
---------------------------------------------------------
(۱) ترمذی عن انس رضی اللہ عنہ، باب ماجاء فی التعیین، ابن ماجہ کتاب التجارت باب من کرہ ان متعیین۔
(۲) الاشباہ والنظائر للسیوطی، ص ۱۸۷۔