عام اور چھوٹی چھوٹی جزئیات تک سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے لیکن کچھ ہدایات ایسی ہیں جو بنیادی اور اساسی حیثیت کی حامل ہیں، پہلے ان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
اس میں پہلی قابلِ ذکر چیز یہ ہے کہ شریعت میں سامان کے عیوب اور خامیوں کو چھپانا بہت ہی ناپسندیدہ بات ہے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانے کے ایک ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر ہاتھ ڈالا، اس میں تراوٹ محسوس کی، فرمایا: یہ کیا ہے؟ تاجر نے عرض کیا کہ بات میں بھیگ گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ پھر اس بھیگے ہوئے دانے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکیں، پھر فرمایا، جو دھوکہ دے، ہم میں سے نہیں "من غش فلیس منا" (۱)۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے اور جانے لگے تو کپڑا پکڑ کر کھینچا اور فرمایا کہ ہر مسلمان کے لئے بھلا سوچنا! ٬النصح لکل مسلم"۔
چنانچہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی سامان فروخت کرتے تو عیب زدہ حصہ سامنے رکھ دیتے اور اختیار دیتے کہ چاہے تو لے اور چائے تو چھوڑ دے۔ حضرت واثلہ بن اسقع کے متعلق مروی ہے کہ ایک شخص نے تین سو دینار میں اونٹنی فروخت کی۔ پھر ابھی وہ شخص نکلا ہی تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے چیخ کر آواز دی اور دریافت فرمایا کہ اونٹنی کس چیز کے لئے لئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ سواری کے لیے۔ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے کُھر میں سوراخ ہے اور وہ تیز نہیں چل سکتی۔ اس شخص نے اونٹنی واپس کر دی اور بیچنے والے نے سو درہم کمی کر دی، تاجر واثلہ سے کہنے لگا کہ آپ نے میرے معاملہ کو خراب کر دیا۔ حضرت واثلہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کسی سامان کو بیچنا جائز نہیں جب تک کہ اس کی خامی کا اظہار نہ کر دیا جائے اور جو کوئی اس خامی سے واقف ہو اس پر بھی اس خامی
------------------------------------------------
(۱) ترمذی کتاب البیوع باب فی کراہیۃ الغش فی البیوع۔