لو پھر تو توکل کرو(1) یعنی اسباب ظاہری کو اختیار کیا جائے اور اس کے نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے جیسا کچھ بھی نتیجہ ظاہر ہو اس پر راضی رہا جائے، نہ یہ کہ اسباب ہی نہ اختیار کئے جائیں جیسا کچھ بھی نتیجہ ظاہر ہو اس پر راضی رہا جائے، نہ یہ کہ اسباب ہی نہ اختیار کئے جائیں حضرت عمرؓ نے خوب فرمایا ہے کہ بعض لوگ کسبِ معاش نہیں کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ اے اللہ روزی دے حالانکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سونا چاندی نہیں برسَاتا(2)
اسلام گداگری اور بھیک منگی کا سخت مخالِف ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ بات کہ تم میں سے ایک شخص اپنی پشت پر لکڑی کا گٹھا اٹھائے اِس بات سے بہتر ہے کہ دوسرے کے سامنے دستِ سوال دَراز کرے اور چاہے تو اسے دے یا نہ دے(3) اس لئے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے (4) ایک اور روایت میں ہے کہ سوال ایک زخم ہے جس سے انسان اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے ، سوائے اس کے کہ امیر اور بیت المال سے مانگا جائے یا بحالتِ مجبوری سَوال کیا جائے (5)ایک صحابی خدمتِ اقدس میں آئے جو مانگ کر اپنی ضرورت پوری کیا کرتے تھے، ان کے پاس صرف پیالہ اور ٹاٹ تھا۔ آپؐ نے دونوں سامان منگایا، ڈاک لگائی اور دو 2 درہم میں اس کو فروخت کیا۔ ایک درہم اس کی ضروریات کے لئے دیا اور ایک درہم میں کلہاڑی بنا دی تاکہ لکڑی کاٹ سکے اور بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر سکے (6)
-----------------------------------------------------------------
(1)مشکوٰۃ شریف
(2) احیاءالعلوم مع الاتحاف 257/6
(3) بخاری عن ابی ہریرۃؓ ، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ
(4) ترمذی، کتاب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی النہی عن المسئلۃ
(5) ترمذی، باب مذکور
(6) ترمذی نے مختصراََ اس روایت کو نقل کیا ہے، کتاب البیوع باب ماجاء فی بیع من یزید۔