غیر فطری بات تھی، اس لئے مذہب کے بعض غالی اور پرجوش معتقدین نے کچھ دن تو ضرور اس بیڑی کو پہننے کی کوشش کی ، لیکن جلد ہی اس بوجھ کو کاٹ پھینکا، اس کے لئے انھوں نے یہ تدبیر نکالی کہ زندگی کو دین و دنیا کے دو (2) خانوں میں تقسیم کر دیا، عباداتی رسوم میں دین کو حَکم بنایا اور زندگی کے عمومی معاملات میں مذہب کو مداخلت سے روک دیا، اس کے مقابلہ میں وہ نظام ہائے حیات ہیں جن کی تاسیس و ترکیب انسانی عقل و دانش کے ہاتھوں ہوئی ۔ ان لوگوں نے انسانی عقل و جذبات کو حَکم اور فیصل مانا اور کسی قید و بند کے بغیر بظاہر انسان کو آزاد اور حقیقتاََ اس کی خواہشات کا غلام بنا کر رکھ دیا۔
اسلام نے اپنے خاص مزاج کے مطابق دونوں کے درمیان اعتدال و توازن قائم کیا اور اس کے لئے دین و مذہب اور عبادت و بندگی کے مفہوم میں وسعت اور ہمہ گیری پیدا کر کے انسانیت کو متوازن ، فطرت سے ہم آہنگ اور انقلابی تصوّرِ حیات عَطا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا کہ انسَانی جِسم اللہ کی امانت ہے اور اس کی فطرت خالقِ کائنات کا عطیہ ہے، اس لئے مناسب حُدود میں اس کی رعایت اور حفاظت خالصتہََ مذہبی عمل ہے۔ ایک مسلمان مسجد میں ہو یا گھر میں، بازاروں میں ہو یا کارخانوں میں، دفتروں میں ہو یا انصَاف گاہوں میں، وہ رکوع اور سجود میں مشغول ہو یا سڑک پر تپتی ہوئی دھوپ میں، رکشا چلا رہا ہو، آہِ سحر گاہی سے اپنی صبحوں کو گرم رکھتا ہو یا صبح دم اللہ کا نام لے کر اس کی زمین میں ہل جوتتا ہو، تسبیح و وظائف میں مشغول ہو یا اپنے بوڑھے والدین اور کزور بچوں کی آنتوں کو ٹھنڈی رکھنے کے لئے گرم پسینے بہا رہا ہو، اس کے ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں عرض و نیاز کے لئے اٹھے ہوئے ہوں یا حلال روزی کے حصُول کے لئے سخت کاموں کی وجہ سے کھُردرے ہو گئے ہوں، بہر کیف و
--------------------------------------------------------------
(2)حلال و حرام