جو مرد کے لئے پریشانی کا باعث ہو۔ حدیث میں نیک بیوی کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کر دے۔ عورت اس حدیث کا مصداق اس وقت ہو سکتی ہے جب اس پر عمل کرے۔
دوسرے یہ کہ مرد کے لئے اپنے آپ کو سجا سنوار کر رکھے اور پوری طرح زیبائش و آرائش کرے۔ شریعت دوسروں کے لئے زیبائش و آرائش کی اجازت نہیں دیتی جبکہ شوہر کے لیے اس کو پسند کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے شوہر عفیف و پاکدامن رہتا ہے، بدنگاہی سے بچتا ہے اور دوسری عورتوں کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی۔
تیسرے اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ایسے مردوں سے انتہائی بے توجہی برتے جن سے تعلق شوہر کو ناپسند گزرے، غیر محرم سے تو یوں بھی شریعت پردہ کا حکم دیتی ہے، لیکن خصوصاً ان لوگوں سے جائز حدوں میں بھی ربط نہیں رکھنا چاہیے جو شوہر کو ناپسند ہوں، اس معاملہ میں مرد کی طبیعت فطری طور پر بہت حساس واقع ہوتی ہے۔
چوتھے، شوہر سے اپنی ضروریات کے مطالبہ میں ایسا رویہ نہ اختیار کرے جس سے خود غرضی کا اظہار ہوتا ہو یا ایسا محسوس ہوتا ہو کہ گویا وہ شوہر کی حریف ہے، مثلاً شوہر کے پاس کپڑے ہوں یا نہ ہوں، اپنے لئے کپڑوں کا مطالبہ یا اگر شوہر کپڑا لائے تو اس کا مقابلہ۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ قناعت اور کفایت شعاری کی راہ اختیار کرے اور اپنے مقابلہ میں شوہر اور دوسرے اہل خانہ کی ضرورت کو مقد رکھے۔ اس طرح جب وہ شوہر کے دل میں اپنا گھر بنا لے گی تو خود بخود مرد وہ کام کرے گا جو وہ چاہتی ہے۔
ان کے علاوہ کھانے اور پکوان میں ایسا تنوع کہ مرد کا رحجان ہوٹلوں کی طرف نہ رہے۔ نیز اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوسروں کے پاس شوہر کی شکایت نہ کرے بلکہ اگر کبھی رنجش اور کبیدگی پیدا ہو گئی تو اپنے ہی حد تک اس کو محدود رکھے۔