نقل کرتے ہیں کیوں کہ یہ خود اس مرد کے لئے اور اس کی بیوی دونوں کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔ اور حضورؐ نے فرمایا ہے نہ اپنا نقصان کرو اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ لاضرر ولا ضرار (1) مشہور حنفی علالم علامہ سرخسی فرماتے ہیں ؛
لا یباح ایقاع الطلاق الا عند الضرورۃ لقولہ علیہ السلام لعن اللہ کل ذواق مطلاق وقال ایما امراۃ اختلعت من زوجھا من نشوز فعلیھا لعنۃ اللہ والملـئکۃ والناس اجمعین وقدروی مثلہ فی الرجل یخلع امراتہ ولان فیہ کفران النعمۃ (2)محض ضرورت ہی کے موقع پر طلاق دینا جائز ہے کہ حضورؐ کا ارشاد ہے اللہ تعالی کی لعنت ہے ذائقہ چشی کرنے والے اور بہت زیادہ طلاق دینے والے پر اور جس عورت نے اپنے شوہر سے ناواجبی کاخلع کا مطالبہ کیا اس پر خدا اور تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور اس طرح کے الفاظ اس مرد کے بارے میں بھی مروی ہیں جو اپنی بیوی سے خلع کرے کہ یہ نعمت خداوندی کی ناشکری ہے
رسول اللہ ﷺ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ وہ ضرورت کون سی ہے جس کی وجہ سے طلاق دی جا سکتی ہے ؟ ارشاد ہوا ؛ لا تطلق النساء الا من ریبۃ (3) عورتوں کو طلاق نہ دی جائے مگر اس وقت جب اس کا کردار مشکوک ہو یوں صرف کردار کے مشکوک ہونے پر ہی موقوف نہیں حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی طلاق میاں بیوی کی جدائی کی ایک ضرورت اور مجبوری بن جاتی ہے کسی وجہ سے زندگی کی راہ پر ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوتا اور حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے سے علیحدہ رہ کر ہی زندگی بسر کرنے میں دونوں کے لئے عافیت رہتی ہے ، ان حالات
---------------------------
(1) المغنی 236/7
(2) المسوط 2/6
(3) مجمع الزوئد 335/4، بب فیمن یکثر الطلاق وسبب الطلاق