کے استعمال سے بھی مرد کے مادۂ منویہ کے تولیدی جراثیم مر جاتے ہیں اور عورت کے رحم تک پہنچ نہیں سکتے۔ پس چوں کہ عزل مکروہ ہے اس لئے بلا عذر منع حمل کے ان ذرائع کا استعمال بھی مکروہ ہے، اس سلسلہ میں بعض اعذار خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مثلاً :
ماں کےلئے ہلاکت کا خطرہ ہو، ان کی دماغی صحت یا جسمانی کمزوری یا کسی شدید مرض کا اندیشہ ہو، ماں بچہ کی پرورش کے لائق نہ ہو اور کوئی متبادل نظم نہ ہو۔ بچہ کے شدید امراض میں ابتلاء کا امکان ہو، دو بچوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا مقصود ہو، یہ اور اس طرح کے اعذار ہیں کہ ان کی وجہ سے ایسے عارضی موانعِ کا استعمال درست ہے، اس لئے کہ فقہاء نے اس سے کمتر امر مثلاً بچوں سے متوقع نافرمانی اور بدسلوکی کے خوف سے بھی عزل کی اجازت دی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے "رجل عزل عن امرأتہ بغیر اذنھا یخاف من الولد السوءَفی ھذا الزمان فظاھر جواب الکتاب ان لا یسعہ و ذکر ھٰھنا یسعہ لسوء الزمان (۱)۔
چھوٹا خاندان رکھنے کے لئے اس کا استعمال درست نہیں کہ "تزوجوا الودود الولود" (حدیث) کے خلاف ہے، سماجی دلچسپی کےلئے سلسلہ تولید پر تحدید بھی صحیح نہیں اور یہ اسلام کے منشأ اور صنفِ نازک کے فرائضِ مادری کے خلاف ہے، حسن و جمال کے تحفظ کے لئے لوگوں نے اس کو جائز رکھا ہے مگر جذبۂ حسن آرائی کو عورت کے فطری فرائض پر تفوق دینا بھی صحیح نہیں نظر آتا، اس لئے یہ اعذار عند الشرع ناقابلِ اعتبار ہیں، ہاں اگر خصوصی حالات کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے عورت کسبِ معاش پر مجبور ہو تو اس کو اجازت دی جا سکتی ہے، اسی طرح اقتصادی نقطۂ نظر سے اس وقت جو تحریک تحدید نسل کی چل رہی ہے وہ
--------------------------------------------------------------
(۱) عالمگیری ۴/۱۱۳۔