عارضی منعِ حمل کیلئے نرودھ کا استعمال کرنا یا عورت کے رحم پر کوئی غلاف چڑھا دینا بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ اوائل اسلام میں " عزل " کا ذکر ملتا ہے ، عزل کی اباحت اور کراہت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے اور اکثر شروحِ حدیث میں تفصیل موجود ہے ، تاہم اکثر صحابہ اور سلف صالحین اس کو مکروہ ہی سمجھتے تھے (1) احناف کی طرف منسوب ہے کہ وہ اس کو بلا کراہت مباح سمجھتے ہیں لیکن ابن ہمام کا بیان ہے کہ مشائخِ احناف میں بھی بعض اس کی کراہت کے قائل ہیں ۔ في بعض اجوبة المشائخ الكراهية و في بعضها عدمها ۔ مشهور حنفي محدث ملا علي قاري نے عزل كے متعلق حديث كے اس فقره " ذلك الواد الحنفي " کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ لا يدل علي حرمة العزل بل يدل علي الكراهة " ( 2 ) حقیقت یہ ہے کہ احادیث کے لب و لہجہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔
نرودھ کا عزل کے حکم میں ہونا تو واضح ہے ، لوپ بھی اسی حکم میں ہے اسی لئے فقہاء نے مرد کے عزل کرنے کے درست ہونے کو جس طرح عورت کی رضا مندی پر مشروط رکھا ہے اسی طرح عورت کے فم رحم کے کسی طرح بند کرنے کو بھی مرد کی رضا مندی پر مشروط کیا ہے ۔ يجوز للمرءة ان تسد فم الرحم منها من وصول ماء الرجل اليه لا جل منع الحل و اشتراط صاحب البحر لذالك اذن الزوج ( 3 ) اور ٖغور کیا جائے تو مقام مخصوص پر مانع حمل دواؤں کا لگانا بھی اسی حکم میں ہے ، اس لئے کہ عزل اور لوپ کے استعمال سے ۔۔۔۔ مادہ منویہ عورت کے رحم میں داخل ہی ہو پاتا اور اس قسم کی ادوئیہ
----------------------------------------------------
( 1 ) المحلی 92 /11 ۔ 391
( 2 ) مرقاۃ المفاتیح 441/3
( 3 ) ردالمختار 412/ 2