۳۱۰
رحم میں جانے کے بعد اب اس کا ماّل حیات اور زندگی ہے لہذا وہ زندہ وجود کے حکم میں ہو گا جیسا کہ حِرم کے شکار کے انڈے کا حکم ہے۔)
پس یہ بات قریب قریب بے غبار ہے کہ نفخِ روح سے قبل بھی اسقاطِ حمل جائز نہیں، البتہ کسی ایسے عذر کی بنا پر جو عند الشرع معتبر ہے، اسقاطِ حمل جائز ہو گا اور ظہیریہ اور عالمگیری وغیرہ میں جہاں مطلقاً اسقاطِ حمل کا جواز مذکور ہے، وہاں حالتِ عذر ہی میں اسقاطِ حمل مراد ہے۔ یہ اعذار دو طرح کے ہو سکتے ہیں، ایک وہ جن کا تعلق خود جنین سے ہو، مثلاً خِلقی نقص، جسمانی اعتبار سے عدم اعتدال یا خطرناک موروثی امراض کا وجود۔ ان اعذار کی بنا پر اسقاط کی اجازت دی جا سکتی ہے اس لئے کہ جب "استبانتِ خلق" سے پہلے بعض شرائط کے ساتھ اس مقصد کے لئے بھی اسقاط کی اجازت دی ہے کہ زیر پرورش بچہ کی رضاعت متأثر نہ ہو اور زیر بحث صورت میں خود پیدا ہونے والے بچہ کو پیدائش کے بعد جس ضرر قوی کا اندیشہ ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے رضاعت والے ضرر سے بڑھ کر ہے، اس لئے ان صورتوں میں بدرجۂ اولیٰ اسقاط جائز ہونا چاہیے۔
دوسری قسم کے اعذار وہ ہیں جن کا تعلق "ماں" سے ہو، مثلاً ماں کی جان کو خطرہ ہو، دماغی توازن متأثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ جسمانی یا دماغی طور پر معذور ہونے کی وجہ سے بچہ کی پرورش کرنے کی اہل نہ ہو اور دوسرے رشتہ دار بھی نہ ہوں جن سے توقع ہو کہ وہ اس بچہ کی پرورش کریں گے۔ زنا بالجبر سے حاملہ ہو گئی ہو، ان تمام صورتوں میں نفخِ روح سے پہلے اسقاط جائز ہو گا۔ کیونکہ فقہاء نے اس سے کم تر قسم کے اعذار پر بھی اسقاط کی اجازت دی ہے، البتہ اگر ماں باپ یوں ہی اولاد نہ چاہیں اور اس غرض کے لئے اسقاط کرائیں یا ماں کی عام صحت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہو لیکن کسی غیر معمولی مرض کا امکان نہ ہو تو ایسی صورتوں