جنسی بے راہ روی ہی کی ایک صورت جلق اور استمناء بالید کی ہے۔ اسلام کی نگاہ میں انسان کا پورا وجود اور اس کی تمامتر صلاحتیں اللہ کی امانت ہیں۔ قدرت نے ان کو ایک خاص مقصد کے تحت جنم دیا ہے۔ جو شخص جسم کے کسی حصہ کا غلط استعمال کرتا ہے وہ دراصل خدا کی امانت میں خیانت اور خلق اللہ میں من چاہے تغیّر کا مرتکب ہوتا ہے۔ انسان کے اندر جو جنسی قوت اور مادۂ منویہ رکھا گیا ہے وہ بھی بے مقصد اور بلا وجہ نہیں ہے، بلکہ اس سے نسلِ انسانی کی افزائش اور بڑھوتری مقصود ہے اور اس قسم کا عمل چاہے جلق و استمناء بالید ہو یا اغلام بازی یا خود اپنی بیوی سے لواطت، اس مقصد کے عین مغائر اور اس سے متصادم ہے۔
اس لئے یہ عمل بھی ممنوع اور حرام ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن توجہ نہیں فرمائیں گے (۱)۔ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر اللہ اور اسکے فرشتوں کی لعنت بھیجی ہے (۲)۔ اس کی حرمت پر سورۂ المؤمنون کی آیت نمبر ۵ تا ۷ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ جس میں جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے دو ہی راستوں کی تحدید کر دی گئی ہے۔ ایک بیوی، دوسرے لونڈی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک تیسری صورت ہے، فقہاء احناف نے اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے۔
قضاء شہوت کی نیت سے ایسا کرنا قطعاً جائز نہیں، ہاں اگر شہوت کا غلبہ ہو، زنا سے بچنے اور شہوت میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا کرنے کے لئے ایسا عمل کیا جائے تو لکھتے ہیں کہ امید ہے اس پر وبال اور عذات نہ ہو گا (۳) چنانچہ ایسے حالات
---------------------------------------------------------------------
(۱) کنز العمال ۱۹۲/۸۔
(۲) کنز العمال ۱۹۴/۸
(۳) خلاصۃ الفتاویٰ ۲۶۰/۱ کتاب الصوم، جنس فی المجامعۃ۔