ہے، اول یہ کہ احناف کے نزدیک کسی عورت کے ساتھ فطری راہ میں زنا یا بلا انزال وداعی زنا کا ارتکاب بھی حرمتِ مصاہرت کو ثابت کرتا ہے (۱) اور اس کا سلسلہ مادری و فروعی وغیرہ اس زانی اور مرتکب کے لئے حرام قرار پاتا ہے، لیکن عام فقہاء کے نزدیک نکاح صحیح ہی اس کی حرمت کو ثابت کرتا ہے (۲)۔
دوسرا اختلاف اس بات میں کے کہ دودھ کی کتنی مقدار سے حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک گھونٹ بھی حرمت کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک کم از کم پانچ گھونٹ سے حرمت ثابت ہوتی ہے (۳)۔ نیز راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ رضاعت اور دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے (۴)۔ دو سال کے اندر بچہ دودھ پی لے تب ہی حرمت ثابت ہو گی اس کے بعد دودھ پئے تو حرمت پیدا نہیں ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک یہ مدت ڈھائی سال ہے اور اس مدت کے اندر دودھ پینا حرمتِ رضاعت کا باعث ہے (۵)۔ ان رشتوں کے حرام قرار دینے کی حقیقی وجہ تو خدا ہی کو معلوم ہے البتہ چند باتیں ایسی ہیں جن کو عقل عام بھی سمجھ سکتی ہے۔
اول یہ کہ کچھ قریبی رشتے ایسے ہیں کہ فِطرت انسان خود ان سے ازدواجی اور جِنسی تعلقات سے اباء کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لامذہب، خدا سے بے خوف اور محض اپنی عقل کو فیصل بنانے والے گروہ بھی ماں، بہن، بہو، بیٹی، ساس، پھوپھی اور دادی، نانی وغیرہ سے ازدواجی تعلقات کو شرم و حیا کے مغائر سمجھتے ہیں، پوری انسانی
------------------------------------------------------------
(۱) دومختار ۲/۲۷۶۔
(۲) ہدایہ ۲/۲۰۸۔
(۳) ہدایہ ۲/۲۵۰۔
(۴) در مختار ۲/۴۰۳۔
(۵) ہدایہ، در مختار ۲/۴۰۳۔