جیسا کہ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہے (نساء:۴) لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ عقد کے وقت ہی مقرر کرلیا جائے ، (۱) مختلف عورتوں کے لئے مہر کے احکام اس طرح ہیں:
۱۔ نکاح کے وقت مہر مقرر ہوچکا ہے اور عورت کے ساتھ تنہائی بھی ہوچکی ہے تو پورا مقررہ مہر واجب ہوگا ۔ (۲)
۲۔ نکاح کے وقت مہر مقرر ہوچکا ہے مگر یکجائی سے پہلے ہی علیحدگی ہوگئی تو نصف مہر مقررہ واجب ہوگا (۳)۔
۳۔ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور شوہر کی بیوی کے ساتھ یکجائی بھی ہوچکی ، اب مہر مثل واجب ہوگا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک عورت کے حق میں اس طرح کا فیصلہ فرمایا اور حضرت معقل بن یسارؓ نے اس کی تائید کی اور فرمایا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا (۴)۔ مہر مثل سے مراد اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا عمومی مہر ہے جو عمر، تمول ، خوبصورتی ، عقل واخلاق اور کنورا پن میں ہمسر ہو (۵) ۔
۴۔ اگر مہر بھی مقرر نہ ہوا تھا اور مرد وزن کی یکجائی بھی نہ ہوئی کہ نوبت طلاق کی آگئی تو متعہ واجب ہوگا (۶) متعہ کی مقدار متعین نہیں بلکہ مرد کی حیثیت اور گنجائش پر منحصر ہے ، عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ ( بقرہ : ۲۳۶)
متعہ کی کم سے کم مقدار کیا ہو ؟ اس سلسلہ میں سلف سے مختلف رائیں منقول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) المغنی ۷؍۱۶۰
(۲) نسا؍ ۲۰ ، ۱۲
(۳) بقرہ : ۲۳۷
(۳) ابوداؤد
(۴) ہدایہ ۲؍۳۳۳
(۵) بقرہ : ۲۳۶